بزم ادب کے تحت بچوں کے ادب کا ہفتہ 18 مئی سے 23 مئی تک منایا گیا، جس میں --- ارکان نے بھرپور شرکت کی۔ معزز ارکان نے اپنے بچپن کی یادیں ، بچپن میں سنی ہوئی کہانیاں، نظمیں اور دیگر یادیں شئیر کیں۔ ادارہ تمام معزز اراکین کا شکرگزار ہے
Tuesday, June 16, 2015
خدا ہے بڑا اور سب سے بڑا
بہت پیاری حمد ... جو میری کلاس کے بچے میوزک پیریڈ میں کرتے ہیں ...
My God is so big
So strong and so mighty
There is nothing my God cannot do
The Mountains are his
The rivers are his
The stars are his handy work too
خدا ہے بڑا اور سب سے بڑا
وہ قوت اور طاقت سے سب کچھ تو کر سکتا ہے
پہاڑ اس کے ہیں
دریا اس کے ہیں
دنیا اس کے ہاتھوں میں ہے
بشکریہ: لبنیٰ طاہر
قائداعظم کے آباء و اجداد (بچوں کے لیے: منصور احمد بٹ۔ ایک ہزار سے زائد کُتب کے مؤلف)
انیسویں صدی آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ ہندوستان میں برطانیہ کی حکومت تھی۔ انگریز جو سوداگروں کے بھیس میں آئے تھے۔ انہوں نے بڑی چالاکی اور عیاری سے مغلیہ شہنشاہ سے دوستی گانٹھ لی، اور پھر اس دوستی کی آڑ میں انہوں نے شہنشاہ ہند جہانگیر سے بہت سی سہولتیں بھی حاصل کیں، پھر رفتہ رفتہ انہوں نے سازشوں کے جال بننا شروع کر دیے، اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر نے لگے اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب پورے ہندوستان پر برطانیہ کی حکومت قائم تھی۔
جنگ آزادی 1857ء کے بعد انگریزوں نے چن چن کر مسلمانوں کو سزائیں دینا شروع کیں،روزانہ کہیں نہ کہیں مسلمانوں کو پھانسیوں پر لٹکا دیا جاتا۔ ان کی جائیداریں ضبط کر لی گئیں۔ ان سے ان کاروزگار چھین لیا گیا۔ انہیں نئی نئی سزائیں دی جاتیں۔
ہر طرف افرا تفری کا عالم تھا۔ مسلمان جو کبھی ہندوستان کے حکمران تھے۔اب انتہائی مفلسی کے عالم میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ کئی گھرانے یا خاندان تو ایسے تھے جو دووقت کی روٹی کو ترستے تھے۔ ہر طرف مسلمانوں پر ظلم ہو رہا تھا۔ مسلمان بے بس تھے مجبور تھے۔وہ کچھ بھی نہ کر سکتے تھے۔ زندگی بالکل پرانی ڈگر پر چل رہی تھی۔ مشینوں کا رواج نہ ہوا تھا۔ زیادہ تر کام ہاتھ سے ہی کیے جاتے تھے۔
ہندوستان کے کچھ علاقے ایسے بھی تھے جن پر ارد گرد کے حالات کا کوئی خاص اثر نہ تھا۔ کاٹھیاواڑ کی ریاست گونڈل ان ہی علاقوں میںشامل تھی۔ برطانوی حکومت سے وفاداروں کے انعام کی بدولت ٹھاکر صاحب گونڈل اپنی تمام تر شان و شوکت کے ساتھ ریاست پر اطمینان سے حکومت کرتے رہے۔ انہوں نے بغاوت کے ہنگامے اپنی ریاست کی حدود تک نہ پہنچنے دیے۔ ویسے بھی وہ نہیں چاہتے تھے کہ ریاست کو کوئی خطرہ لاحق ہو۔
ٹھاکر صاحب کے زیر سایہ ریاست کے باشندے اپنی زندگی معمول کے مطابق بسر کر رہے تھے۔ صدر مقام گونڈل ریاست کا سب سے بڑا شہر تھا، مگر زیادہ آبادی دور دور تک پھیلے ہوئے دیہات میں آباد تھی، اور بڑی سادہ زندگی گزار رہی تھی۔ ان کی اپنی ایک چھوٹی سی دنیا تھی، اور بیل گاڑیوں کے اس زمانے میں ان کے لیے سب سے اہم چیز گونڈل ہی تھی۔
ان دیہات میں ایک گائوں پانیلی تھا۔ پانیلی کی آبادی ایک ہزار سے بھی کم تھی۔ ان دنوں پانیلی میں ایک اسماعیل خوجہ خاندان اپنی پرانی خاندانی رسم و رواج کے ساتھ رہ رہا تھا۔ ایک ہزار افراد کی اس بستی میں اس خاندان کو بڑی عزت اور احترام کے ساتھ دیکھا جاتا تھا۔
خاندان کے سربراہ پونجا بھائی ایک محنتی انسان تھے، انہوں نے گائوں میں کپڑا بننے کی کچھ دستی کھڈیاں لگا رکھی تھیں۔ اس زمانے میں کپڑا بننے والی مشینیں ہندوستان میں نہیں پہنچی تھیں، چنانچہ پونجا بھائی کافی خوشحالی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اور پانیلی کے چند گنے چنے عزت دار گھرانوں میں ان کا بھی شمار ہوتا تھا۔
جناح پونجا سے پہلے ان کے باپ دادا بھی اس گائوں میں زندگی گزار چکے تھے۔ پانیلی کے اکثر لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے، مگر جناح پونجا ایک ہمت والے انسان تھے۔ وہ کوئی بڑ ا کام کرنا چاہتے تھے۔ جس سے ان کی عزت میں بھی اضافہ ہو، اور خوشحالی بھی ان کے گھر میں اتر جائے۔ اس لیے انہوں نے کھیتی باڑی کے بجائے چند کھڈیاں لگا رکھی تھیں، جن پر وہ رات دیر تک کپڑا بنتے رہتے۔ اپنی مدد آپ کے تحت انہوں نے کچھ ملازم بھی رکھے ہوئے تھے۔ ان کھڈیوں پر معمولی قسم کا کپڑا بنا جاتاتھا جن کی فروخت سے انہیں اتنی رقم مل جاتی کہ پانیلی کے کھاتے پیتے گھرانوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
جناح پونجا کے تین بیٹے ونجی بھائی، نتھو بھائی اور جناح بھائی تھے، ان کی اکلوتی بیٹی کا نام منی بھائی تھا۔ جنا بھائی سب سے چھوٹے تھے۔ وہ ہندوستان کی پہلی بغاوت سے چند سال پہلے 1850ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے تھے، اور اپنے دونوں بھائیوں سے زیادہ کام کرنے والے حوصلہ مند تھے۔ جناح بھائی اپنے دونوں بھائیوں کے مقابلے میں ہوشیار تھے، ان میں ایک عزم پایا جاتاتھا۔ ان کے دل میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا شوق موجود تھا۔ جناح گجراتی زبان کے لفظ جینا کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ جس کے معنی ہیں لمبا اور دبلا پتلا، جناح بھائی تھے بھی لمبے اور دبلے پتلے۔ شاید اسی وجہ سے ان کا یہ نام پڑ گیا۔
پانیلی ایک چھوٹا سا گائوں تھا، جو گھر سے شروع ہوتا تو بازار جا کر ختم ہو جاتا۔ وہاں مزیدآگے بڑھنے کے مواقع نہیں تھے بس ز ندگی ایک رفتار سے چل رہی تھی، مگر جناح بھائی کے دل میں توآگے بڑھنے کا جذبہ موجودتھا۔ وہ اپنے بزرگوں سے بھی دو ہاتھ آگے جانا چاہتے تھے۔ اور پانیلی میں رہ کر یہ سب کچھ ممکن نہ تھا، یہاں ابھرنے اور آگے بڑھنے کا کوئی موقع نہ تھا۔
اس خواہش نے انہیں آگے بڑھنے پر مجبور کیا۔ جناح بھائی کو اپنے دونوں بھائیوں کی طرح باپ کی کھڈیوں پر کپڑا بننے میں کوئی لطف نہ آتا تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ زندگی اب تیزی سے بدل رہی ہے، اور ضروری ہے کہ انسان کنوئیں کا مینڈک بننے کی بجائے آگے بڑھے اور ترقی کی کوشش کرے۔ مگر کیا کیا جائے۔ یہ وہ سوال تھا جو انہیں مسلسل پریشان رکھتا۔ اس سلسلے میں ان کی کوئی رہنمائی کرنے والا بھی نہ تھا۔ کون ا نہیں ترقی کا راستہ دکھاتا۔ وہ اپنی ساری زندگی ان کھڈیوںپر کپڑا بنتے ہوئے گزار نا نہیں چاہتے تھے۔ اللہ نے تو انہیں کسی اور کام کے لیے دنیا میں بھیجا تھا، پھر بھلا وہ اپنی زندگی کپڑا بنتے ہوئے کیوں گزاردیتے۔
اس خواہش نے جناح بھائی کو پانیلی کے چھوٹے سے گائوں سے نکال کو گونڈل پہنچا دیا۔ انہوں نے سنا تھا کہ گونڈل بہت بڑا شہر ہے۔ وہاں کی زندگی ہنگاموں سے بھری ہوئی ہے۔ وہاں بڑے بڑے تاجر رہتے ہیں، انہوں نے سوچا کہ وہ پانیلی میں اپنی زندگی کیوں برباد کرتے رہیں، اور اپنے بھائیوں اور خاندان کے ساتھ ان دستی کھڈیوں کے تانے بانے میں کیوں الجھے رہیں۔ یہ تو بڑی چھوٹی سی دنیا ہے، جس میں کوئی عظیم شے نہیں ہو سکتی۔ وہ گونڈل جیسے بڑے شہر میں جا کر کوئی بڑا کام کرنا چاہتے تھے۔
گونڈل کا ٹھیاواڑ کا صدر مقام تھا۔ اس شہر میں خاصی گہماگہمی تھی۔ اور آبادی بھی کوئی چالیس ہزار کے قریب تھی۔ جناح بھائی اپنے والد سے اپنے حصے کی رقم لے کر گونڈل آئے۔ جناح بھائی انتہائی ذہین انسان تھے، وہ بڑے محتاط واقع ہوئے تھے۔ وہ جلد بازی میں کسی تجارت میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ ان کے پاس اتنی رقم نہ تھی کہ وہ برباد کر سکیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں کافی سوچ و بچار کی، انہوں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ ایسا کاروبار کیا جائے جس میں رقم جلد واپس مل سکے۔ انہوں نے تجارت شروع کی، ان کی قابلیت اور محنت کے سبب تجارت خوب چل نکلی۔ اللہ نے کام میں برکت دی انہوں نے بڑی محنت سے کام کیا، اور چند ہی برسوں میں اللہ نے ان کی محنت میں برکت دی اور ان کا کاروبار خوب چمک اٹھا۔
جب وہ پانیلی واپس آئے تو ان کے والد پونجا بھائی کو یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ بیٹے نے شہر میں خاصا منافع کمالیا ہے، اور شہر میں اس کا باعزت روزگار ہے۔
جب وہ پانیلی واپس آئے تو ان کے والد پونجا بھائی کو یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ بیٹے نے شہر میں خاصا منافع کمالیا ہے، اور شہر میں اس کا باعزت روزگار ہے۔
زندگی کی پرانی روایات کے مطابق ان کی خواہش تھی کہ بیٹے نے اتنے عرصے میں تجارت کے میدان میں جو کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ اس پر یوں توجہ دیتا رہے، اس دوران جناح بھائی کے دونوں بڑے بیٹوں کی شادیاں بھی ہو چکی تھیں۔اب بوڑھے والدین یہ سوچ رہے تھے کہ سب سے چھوٹے بیٹے جناح بھائی کا رشتہ بھی کسی اچھے خاندان میں کر دیا جائے۔
ماں باپ نے بہو کی تلاش شروع کر دی تا کہ جناح بھائی کے گونڈل جانے سے پہلے ہی ان کی شادی کر دی جائے۔ اس تلاش میںوہ ادھر ادھر بھی گئے۔ آخرکار پانیلی سے دس میل دور ڈھرفا نامی گائوں میں ان ہی کی برادری کے ایک کھاتے پیتے خوجہ اسماعیلی خاندان کی ایک پیاری سی لڑکی مٹھی بھائی انہیں پسند آگئی۔ پونجا بھائی نے اس لڑکی کو اپنی تیسری بہو بنا نے کا فیصلہ کر لیا۔جب انہوں نے رشتے کے لیے پیغام بھیجا تو لڑکی کے والدین فوراً رضا مند ہو گئے۔ چنانچہ1874ء کے لگ بھگ ڈھرفا میں جناح بھائی، مٹھی بھائی سے شادی ہو گئی۔ جس کے بعد دونوں مستقل طور پر گونڈل میں آباد ہو گئے۔
گونڈل میں جناح بھائی کا کاروبار خوب چمک اٹھا تھا۔ اس نوجوان کے دل میں محنت کرنے اور آگے بڑھنے کی ایسی لگن تھی کہ تھمنے کا نام نہ لیتی تھی۔ ان کا یقین تھا کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے کے بعد پوری محنت سے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ انہیں آرام طلبی اور کاہلی سے چڑتھی۔ جلد ہی گونڈل بھی ان جیسے جواں ہمت اور پرعزم شخص کے لیے سکڑ کر یہ شہر چھوٹا پڑ گیا۔
انہوں نے سن رکھا تھا کہ بمبئی میں دولت برستی ہے اور تجارت سے منسلک لوگ وہاں خوب دولت کما رہے ہیں۔ بمبئی کے علاوہ انہوں نے کراچی کے متعلق بھی بہت سی باتیں سنیں، جو ایک اہم بندرگاہ تھا، اور تجارتی مرکز بنتا جا رہا تھا۔
پر ندے کی فر یاد : علامہ اقبال [بچو ں کے لیے]
آتا ہے یاد مجھ کو گزُرا ہُوا زمانا
وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں، وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر ، آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مُسکرانا
وہ پیاری پیاری صُورت ، وہ کامنی سی مُورت
آباد جس کے دم سے، تھا میرا آشیانا
آتی نہیں صدائیں اُس کی مِرے قفس میں
ہوتی مِری رہائی اے کاش میرے بس میں
کیا بد نصیب ہُوں میں، گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں ، میں قید میں پڑا ہوں
آئی بہار، کلیاں پھُولوں کی ہنس رہی ہیں
میں اِس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں
اِس قید کا الٰہی! دُکھڑا کِسے سُناؤں
ڈر ہے یہیں قفسں میں، میں غم سے مر نہ جاؤں
جب سے چمن چُھٹا ہے ، یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے ، غم دل کو کھا رہا ہے
گانا اِسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سُننے والے
دُکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے ، او قید کرنے والے!
میں بے زباں ہوں قیدی ، تو چھوڑ کر دُعا لے
علامہ اقبال
میں مُنا سا چوزہ ھوں
چوں چو چوں چوں چو چوں
میں مُنا سا چوزہ ھوں
مُرغی میری امی ھے
میں امی کا بیٹا ھوں
چوں چو چوں چوں چو چوں
میں مُنا سا چوزہ ھوں
مُرغی میری امی ھے
میں امی کا بیٹا ھوں
چوں چو چوں چوں چو چوں
بشکریہ : علی عمر
بات ہے پرانی بچو۔۔
بات ہے پرانی بچو۔۔
بات ہے پرانی۔۔
محل کی کہانی کی اک خوبصورت رانی
اس رانی نے بسائے تین گاؤں
اس رانی نے بسائے تین گاؤں
دو بسے بسائے تھے ایک بسا نہیں
جو بسا نہیں تھا بچو
اس میں آئے تین کمہار
دو لنگڑے لولے سے اک کے ہاتھ نہیں
جس کےہاتھ نہیں تھے بچو
اس نے بنائی تین ہنڈ یاں
دو ٹوٹھی پوٹھی سی اک کا پیندا نہیں
جس کا پیندا نہیں تھا بچو
اس میں پکا ئے تین چاول
دو گلے گلا ئے سے اک گلا نہیں
جو گلا نہیں تھا بچو
اس کو کھا گئے تین بچے
دو روٹھے راٹھےسے اک مانا نہیں
جو مانانہیں تھا بچو اس کو لگائے تین تھپڑ
ایک دائیں ایک بائیں ایک لگا نہیں
بات ہے پرانی بچو
بات ہے پرانی
بشکریہ: تنزیلہ عمیر
Monday, June 15, 2015
بچے عکس ہیں میرے: شہاب احمد
بچے عکس ہیں میرے
بہار نو کی آمد ہے
کھلا چاھتی ہے پھلواری
ہوائیں گنگناتی ہیں
یہ موجے رقص ہیں میرے
میری آنکھوں کی راحت ہیں
میرے آنگن کی زینت ہیں
یہ میرے لالہ و گل ہیں
یہ بچے عکس ہیں میرے
یہ خوابوں کا تسلسل ہے
مرےجیون کا حاصل ہے
آئینہ در آئینہ ہر سو
یہ بچے عکس ہیں میرے
شکایت کیا۔ گلا کیسا؟
گلوں سے منسلک آخر
چمن میں خار ہوتےہیں
خوبیاں ساری ہیں انکی
اور سارے نقص ہیں میرے
یہ بچے عکس ہیں میرے
شہاب احمد
Subscribe to:
Posts (Atom)