Wednesday, May 27, 2015

بلبل کابچہ

ُﻠﺒُ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ
ﮐﮭﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮭﭽﮍﯼ
ﭘﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﭘﺎﻧﯽ
ُﻠﺒُ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ
ﮔﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮔﺎﻧﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺮﮨﺎﻧﮯ
ُﻠﺒُ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ
ِ ﺩﻥ ﺍﮐﯿﻼ
ﺑﯿﭩﮭﺎ ُﻮﺍ ﺗﮭﺎ
ُﻠﺒُ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ُﮌﺍﯾﺎ
ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ
ُﻠﺒُ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ
ﮐﯿﺴﮯ ُﻼﺅﮞ
ﮐﯿﺴﮯ ُﮭﻼﺅﮞ
ُﻠﺒُ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ

ﮐﻼﻡ : ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﻗﯿﻮﻡ ﻧﻈﺮ

ایک تھا پودنا اور ایک تھی پودنی: سینہ بہ سینہ


دونوں ہنسی خوشی ایک راجہ کے کھیت قریب واقع ایک درخت پر رہا کرتے تھے۔ پودنا تو ادھر اُدھر سے دانہ دنکہ چگ لیتا تھا جبکہ پودنی کچھ نفاست پسند تھی ، اسی وجہ سے پودنی دانہ لینے راجہ کے کھیت میں جایا کرتی۔ اس عادت پر پودنے کو بڑا غصہ آتا اور وہ پودنی کو ڈانٹا کرتا کہ تُو راجہ کہ کھیت میں دانہ نہ چگا کر، اس بات پر پودنی نے پودنے کو کہا کہ کچھ بھی ہو میں تو راجہ کے کھیت سے ہی دانہ کھاؤں گی۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ راجہ اپنے کھیتوں کا معائنہ کر نے آیا تو اس کے درباریوں نے راجہ کو شکایت لگائی کہ دن بدن کھیت کی فصل خراب ہورہی ہے۔ راجہ نے وجہ پوچھی تو درباریوں نے کہا کہ ایک پودنی ہے جو اس کھیت میں دانہ چگنے کے لئے آتی ہے اور اسی لئے فصل خراب ہورہی ہے۔ اس پر راجہ نے غصہ سے کہا کہ اس کمبخت پودنی کو پکڑ کر پینجرے میں بند کرو اور میرے محل میں رکھ دو۔
پودنی روزانہ کی طرح صبح دانہ چگنے اپنے گھونسلے سے نکلی ، اور راجہ کے کھیت میں جاکر دانہ چگنے لگی ، یہ دیکھ کر راجہ کےملازموں نے پودنی کو پکڑا اور پینجرے میں بند کرکے اس کو راجہ کی خواب گاہ سے منسلک بالکنی میں جاکر لٹکا دیا۔
صبح سے دوپہر ، دوپہر سے شام اور شام سے رات ہوگئی لیکن پودنی کا کچھ پتہ نہ تھا اور پودنا انتظار میں کبھی ایک ڈال تو کبھی دوسری ڈال پر چکر لگاتا کہ شاید اب پودنی آجائے، لیکن پودنی جب رات گئے تک واپس نہیں آئی تو پودنے نے سوچا کہ ہو نہ ہو پودنی ضرور دانہ چگنے راجہ کے کھیت میں گئی ہوگی اور اسے راجہ کے آدمیوں نے پکڑ لیا ہوگا۔ جب صبح ہوئی تو پودنے نے یہ سوچ کر فیصلہ کیا کہ یہاں ٹہرنے کاکوئی فائدہ نہیں بلکہ مجھے راجہ سے اپنی پودنی کو چھڑوانہ ہوگا۔ اب پودنے کے سامنے ایک لمبا سفر تھا جو وہ اپنے چھوٹے ہونے کی وجہ سے نہیں کرسکتا تھا۔ اس وجہ سے اس نے کچھ سرکنڈے اکھٹے کئے اور ایک گاڑی بنائی اور اس میں دو مینڈک جوت کر سفر کے لئے تیار ی پکڑی۔
ابھی پودنا راستے میں تھا کہ اسے ایک بلی نظر آئی ، بلی نے اسے دیکھ کر پوچھا کہ “میاں پودنے کہا چلے”، اس پر پودنے نے غصے سے جواب دیا،
سرکنڈے کی گاڑی میں دو مینڈک جوتے جائیں
راجہ مارے پودنی ، ہم لڑنے مرنے جائیں۔
یہ سن کر بلی کو بڑا غصہ آیا اور وہ کہنے لگی کہ میاں پودنے مجھے بھی ساتھ لے چلو ۔ اس بات پر پودنے میاں بہت خوش ہوئے اور جھٹ سے کہا کہ” گھس گھس میرے کان میں گھس”، اور بلی میاؤوں میاؤوں کرتی پودنے کے کا ن میں جاکر بیٹھ گئی، اور پودنے میاں ، پُدم پُدم بھئی پُدم پُدم کہتے ہوئے راستہ طے کرنے لگے۔
جب پودنے میاں کچھ اور آگے چلے تو انھیں چیونٹیوں کی ایک قطار نظر آئی ، اس قطار میں سےایک چیونٹی نے پودنے سے پوچھا کہ پودنے میاں کہاں چلے؟ اس پر پودنے نے غصہ میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ۔
سرکنڈے کی گاڑی میں دو مینڈک جوتے جائیں
راجہ مارے پودنی ، ہم لڑنے مرنے جائیں
چیوںٹیوں نے جب یہ سنا کہ بیچاری پودنی کو راجہ نے اپنے محل میں قید کر رکھا ہے تو انھیں بڑا غصہ آیا، اور انھوں نے پودنے سے کہا کہ “میاں پودنے ہمیں بھی ساتھ لے چلو” ۔ پودنے میاں یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور کہا”پُھس پُھس میرے کان میں گُھس”۔
یہ سننا تھا کہ کہ ساری چیونٹیاں سیں سیں کرتی پودنے کے کان میں جاکر بیٹھ گئیں، اور پودنے نے اپنا سفر پھر سے شروع کیا۔
اب جو پودنے میاں کچھ آگے چلے تو ایک دریا راستے میں آگیا، پودنے کو دیکھ کر دریانے پودنے سے پوچھا ،”بھائی پودنے کہاں جارہے ہو”۔ یہ سن کر پودنے نے غصہ سے جواب دیا۔
سرکنڈے کی گاڑی میں دو مینڈک جوتے جائیں
راجہ مارے پودنی ، ہم لڑنے مرنے جائیں
یہ سن کر دریا نے غصہ میں پودنے سے کہا کہ” میاں پودنے مجھے بھی ساتھ لے چلو”۔ یہ سن کر پودنے میاں بہت خوش ہوئے اور کہا،”گُھس گُھس میرے کان میں گُھس” یہ سن کر دریا شڑڑ شڑڑ کرتا پودنے میاں کے کان میں گُھس کر بیٹھ گیا، اور پودنے میاں “پُدم پُدم بھئی پُدم پُدم” کہتے ہوئے باقی کا سفر طے کرنے لگے۔
چلتے چلتے پودنے میاں راجہ کے محل کے دروازے پر پہنچے تو پودنے کو دیکھ کر راجہ کے محل کے چوکیدار ہنسنے لگے۔ یہ دیکھ کر پودنے کو غصہ آیا اور محل کے چوکیدار سے کہنے لگا،” جاؤ اور اپنے راجہ سے کہہ دو کہ میری پودنی کو رہا کردے ورنہ میں اسے تباہ کردوں گا، یہ سن کر توچوکیدار اور بھی زور زور سے ہنسنے لگے اور پودنے کا مذاق اُڑانے لگے، پھر اپنے راجہ کے پاس جاکر انھوں نے یہ صورتحال بتلائی، یہ سن کر راجہ کو غصہ آیا کہ اتنا سا پودنا اور مجھ جیسے راجہ سے لڑنے آیا ہے، اس چیختے ہوئے کہا کہ جاؤ اور اس
اس حقیر پودنے کوہمارے مرغی خانے میں بند کردو، مرغیاں اس کمبخت پودنے کو ٹھونگیں مار مار کر ہلاک کردیں گی۔
یہ سن کر راجہ کے ملازموں نے پودنے کو مرغی خانے میں قید کردیا۔
جب رات ہوئی تو پودنے نے آواز لگائی،” اے مانو بلی! لے کر اب اللہ کا نام ، شروع کرو تم اپنا کام” ، یہ سن کر بلی میاؤوں میاؤوں کرتی پودنے کے کان سے نکل گئی، پہلے تو بلی نے خوب دعوت اُڑائی اور پھر جو مرغیاں باقی بچیں انھیں پنجے مار مار کر ادھ موا کردیا، پھر پہلے کی طرح مانو بلی پودنے کے کان میں جاکر بیٹھ گئی، اور پودنے میاں سکون سے ایک طرف لیٹ کر سوگئے۔
صبح جب راجہ کے ملازم پودنے کی لاش لینے آئے تو یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ ساری مرغیاں مری ہوئی ہیں، وہ بھاگے بھاگے راجہ کے پاس پہنچے اور راجہ کو صورتحال بتلائی۔ یہ سن کر راجہ غصے سے آگ بگولا بن گیا اور چیختے ہوئے بولا کہ آج اسے ہاتھی خانے میں بند کردو، صبح اس کو کچلا ہوا دیکھ کر لطف آئے گا۔
ملازموں نے پودنے کو پکڑ کر ہاتھی خانے میں بند کردیا، جب رات ہوئی تو پودنے میاں اٹھے اور کہنے لگے”اری چیونٹیوں! لے کر اب اللہ کا نام ، شروع کرو تم اپنا کام”۔ یہ سن کر چیونٹیاں پودنے کے کان سے نکلیں اور ہاتھیوں کو سونڈ میں گُھس کر خوب کاٹنا شروع کیا۔ سارے ہاتھی تکلیف سے مر گئے۔ یہ دیکھ کر پودنے میاں ایک کونے میں جاکر سوگئے۔
صبح جب راجہ کے ملازم پودنے کی کچلی ہوئی لاش لینے آئے تو یہ دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے کہ سارے ہاتھی مرے پڑے ہیں اور پودنا ایک کو میں سورہا ہے، وہ بھاگے بھاگے راجہ کے پاس پہنچے اور یہ سارا قصہ سنایا۔ راجہ یہ سن کر بہت غصے میں آگیا اور کہنے لگا کہ اس حقیر پودنے کو آج میری خواب گاہ میں بند کردو، میں صبح خود اس کی گردن کاٹ کر ہلاک کردوں گا۔
رات ہوئی تو راجہ اپنے تمام کاموں سے فارغ ہو کر اپنی خواب گا ہ میں آیا اور پودنے کو دیکھ دیکھ کر اس نے اپنی تلوار خوب تیز کی اور اسے اپنی تکیے کے نیچے رکھ کر سو گیا۔
رات گہری ہوئی تو پودنے میاں نے سُرسُرا کر کہا۔” اے دریا بھائی! لے کر اب اللہ کا نام ، شروع کرو تم اپنا کام”، یہ سن کر دریا شڑڑ شڑڑ کرتا پودنے کے کان سے نکلا اور سارے محل میں پانی بھر نے لگا، راجہ کے سارے ملازم خوفزدہ ہوکر چیخنے لگے ، دریا اور ملازموں کا شور سن کر راجہ کی آنکھ کھل گئی، لیکن دیر ہوچکی تھی۔ پانی مسہری کے اوپر چڑھ چکا تھا اور آہستہ آہستہ اتنا پانی ہوا کہ راجہ اس میں ڈوبنے لگا، اور چختے ہوئے مدد کے لئے پکارنے لگا، یہ دیکھ کر پودنا ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ یہ ہوتا ہے ظلم کا انجام۔ راجہ خوفزدہ ہوکر کہنے لگا کہ پودنے میاں مجھے معاف کردو میں اب کسی کو تنگ نہیں کروں گا اور تمھاری پودنی کو چھوڑ دوں گا، پودنے نے خوب تسلی کے بعد دریا کو کان میں جانے کا کہا اور سارا دریا پودنے کے کان میں چلا گیا۔
صبح ہوئی تو راجہ نے ملازموں کو حکم دیا کہ پودنی کو رہا کرو اور عزت احترام سے اسے اور پودنے میاں کو ان کے گھونسلے میں چھوڑ آؤ، اور آئندہ کبھی بھی انھیں کھیت میں دانہ چگنے پر کچھ نہ کہا جائے۔
اور یوں یہ سارا قصہ تمام ہوا۔

بشکریہ: سبین کومل

ہمارے پڑوسی: رؤف پاریکھ

سنتے ہیں کہ اچھے پڑوسی اللہ کی نعمت ہیں، لیکن یہ بات شاید ہمارے پڑوسیوں نے نہیں سنی۔ ہم نہیں کہتے کہ ہمارے پڑوسی اچھے نہیں ہیں۔ صرف آپ کے سامنے ایک نقشا سا کھینچتے ہیں جس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہمارے پڑوسی کیسے ہیں۔
سب سے پہلے مرزا صاحب کو لیجئے۔ یہ حضرت ریڈیو بجانے کے بہت شوقین ہیں، بلکہ یوں لگتا ہے کہ مارکونی صاحب کو ریڈیو ایجاد کرنے کا خیال مرزا صاحب کے ذوق و شوق کو دیکھ کر ہی آیا تھا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو چوبیس گھنٹوں میں سے کوئی بائیس گھنٹے ان کا ریڈیو بجتا ہے بلکہ چیختا ہے اور پورے زور و شور سے چیختا ہے۔ ان کو غالباً ریڈیو کی آواز کم کرنے کا طریقہ نہیں معلوم، اسی لیے تمام محلے والوں نے اپنے اپنے ریڈیو بیچ کر روئی کے بنڈل خرید لیے ہیں اور روئی نکال نکال کر کانوں میں ٹھونستے رہتے ہیں۔ ان کے ریڈیو پر دنیا بھر کے دور دراز کے ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر ہونے والے پروگرام پورا محلہ (روئی ٹھونسنے کے باوجود) آسانی سے سن لیتا ہے۔ البتہ قریب کھڑے ہوئے آدمی کی آواز نہیں سنائی دیتی۔
قریشی صاحب بھی کچھ اسی قسم کا شوق رکھتے ہیں۔ انہیں موسیقی سے بہت لگاؤ ہے۔ لیکن فرصت انہیں آدھی رات کے بعد ہی نصیب ہوتی ہے ، اسی لیے یہ ٹھیک اسی وقت ستار، ہارمونیم اور طبلہ بجانا شروع کرتے ہیں جب مرزا صاحب کا ریڈیو بند ہوتا ہے۔ اس طرح ہمارے محلے میں چوبیس گھنٹے بجلی، پانی اور گیس کی سہولت کے ساتھ موسیقی بھی چوبیس گھنٹے دستیاب ہے۔
محلے میں آدمی رات کو رونق میں مزید اضافہ اس وقت ہو جاتا ہے۔ جب جمالی صاحب کے دوستوں ج کی محفل جمتی ہے۔ اس محفل میں خوب خوب قہقہے لگائے جاتے ہیں اور وہ ادھم مچا ہے کہ توبہ ہی بھلی، کبھی کبھی ان کے دوستوں میں سے کوئی صاحب تانیں بھی اڑاتے ہیں۔ اس سارے ہنگامہ ہاؤ سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ محلے میں رات بھر کوئی چور پاس پھٹک تک نہیں سکتا۔
اس سارے شور شرابے پر جلالی صاحب البتہ بہت خفا ہوتے ہیں۔ جلالی صاحب کئی سال یورپ میں رہ چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ یورپ کے کسی شہر میں یہ سارا شور و غل ہو تو فوراً پولیس آ جائے اور ان بدتمیزوں کو پکڑ کر لے جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپ میں لوگ رات دس بجے کے بعد سیڑھیاں بھی دبے قدموں چڑھتے اترتے ہیں تاکہ گھروں میں سوئے ہوئے لوگوں کی نیند خراب نہ ہو لیکن اس کا کیا علاج کہ ابھی جلال صاحب کی موٹر سائیکل میں سائلنسر یعنی شور کم کرنے والا آلہ نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حضرت جب موٹر سائیکل پر سوار ہو کر آتے جاتے ہیں تو پھٹ پھٹ کا ایک ایسا کان پھاڑ دینے و الا شور سنائی دیتا ہے کہ قبر میں پڑے مردے بھی سن لیں تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں یا کم از کم کروٹ تو ضرور لیں۔ ہمارا جی چاہتا ہے کہ ان سے پوچھیں کہ اگر ایسی موٹر سائیکل یورپ کے کسی شہر میں چلائی جائے تو کیا ہو۔ کیا وہاں پولیس ایسے بدتمیزوں کو انعام دیتی ہے۔
نازک صاحب بھی مزے کے آدمی ہیں۔ انہیں جانور پالنے کا شوق ہے۔ ان کے گھر کے باہر ایک بکرا دو بھینسیں اور ایک ہرن بندھا رہتا ہے۔ گھر کے صحن میں مور اور بطخیں ہیں اور گھر میں کسی جگہ طوطے ، چڑیاں، بلبلیں اور نہ جانے کون کون سے پرندے پال رکھے ہیں۔ غرض گھر کیا ہے اچھا خاصا چڑیا گھر ہے۔ نازک صاحب ان تمام حیوانات کی غلاظت اور اپنے گھر کا کوڑا بڑی پابندی سے روزانہ گھر سے باہر سڑک پر پھینکتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ شہر میں گندگی بڑھتی جا رہی ہے ، لوگ صفائی کا خیال نہیں کرتے ، وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے ایک اور پڑوسی طفیلی صاحب کی عادت ہے کہ وہ اکثر چیزیں ادھار مانگتے ہیں۔ مثلاً استری، اخبار، جھاڑو، برتن، کتابیں، تھوڑی سی چائے کی پتی، ذرا سا آٹا، صرف ایک انڈا، معمولی سا نمک، چٹک بھر کالی مرچیں وغیرہ اور بے چارے اکثر واپس کرنا بھول جاتے ہیں۔ ایک دفعہ وہ ہماری بجلی کی استری کئی دن تک استعمال کرتے رہے اور ہم بڑی مشکل سے مانگ کر واپس لائے تو اگلے دن آ موجود ہوئے کہا “ہماری” استری واپس کیجئے۔ خاصی مغز مارے کے بعد انہیں یاد آیا کہ وہ استری ان کی نہیں اصل میں ہماری تھی اور کافی عرصے سے ان کے گھر میں رہنے کی وجہ سے انہیں اپنی لگنے لگی تھی۔
ہمارے پڑوسیوں کی فہرست خاصی لمبی ہے اور ان سب کی دلچسپ عادتیں بیان کی جائیں تو دفتر کے دفتر بھر جائیں لیکن ہم یہ سوچ کر اس مضمون کو ختم کیے دیتے ہیں کہ آخر ہم بھی تو کسی کے پڑوسی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ان کو بھی ہم سے کچھ شکایتیں ہوں۔ اگرچہ ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی پڑوسی کو ہماری وجہ سے کوئی تکلیف نہ ہو، کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس شخص کی شرارتوں سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں وہ مومن نہیں۔
نونہال دوستو! امید ہے کہ آپ وہ سب نہیں کرتے ہوں گے جو ہمارے پڑوسی کرتے ہیں۔

ہمدردی اور رحم دلی: انور فرہاد


ایک عورت نے ایک نہر کے کنارے جاکر اپنی گود میں چھپائی ہوئی کوئی چیز زمین پر رکھ دی۔ زمین پر اس چیز کے رکھتے ہی ایک باریک سی آواز اُبھری۔ جیسے کوئی بچہ رو رہا ہو۔ عورت نہر میں پانی پینے جھکی تو توازن قائم نہ رہ سکا اور وہ گر کر بہتی ہوئی دور چلی گئی۔
یہ سارا تماشا قریب ہی ایک درخت پر موجود ایک بندر اور بندریا دیکھ رہے تھے۔ عورت کے ڈوبتے ہی دونوں چھلانگ لگاتے ہوئے نیچے پہنچے اور بندریا نے جھپٹ کر کپڑے میں لپٹے بچے کو اُٹھالیا۔ بچہ مسلسل روئے جا رہا تھا۔
بندر بولا:” لگتا ہے بھوکا ہے۔
بندریا نے جھٹ اسے اپنے سینے سے لگالیا۔ بچہ چپ ہو گیا۔
بندریا بچے کو دیکھتے ہوئے بولی:” کتنا پیارا ہے۔ لگتا ہے ایک دود ن سے زیادہ اس کی عمر نہیں۔یہ اب میرا بچہ ہے ۔ اب میں ہی اسے ماں بن کر پالوں گی۔ تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں؟
نہیں ،کسی بے سہارا کو سہارا دینا تو بڑی اچھی بات ہے۔
چند دنوں کے بعد پورے جنگل میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ ایک بندر اور بندریا نے ایک انسانی بچے کو گود لے لیا ہے۔ جنگل کے جانور بندریا اور بندر کی گود میں انسانی بچے کو دیکھتے تو حیران بھی ہوتے اور خوش بھی۔
ایک دن ایک کوے نے آکر بندر اور بندریا کو جنگل کے بادشاہ کا پیغام دیا:” تم دونوں کو بادشاہ سلامت نے دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا ہے اور اس انسانی بچے کو بھی ساتھ لے کر آنے کی تاکید کی ہے۔“ دونوں فکر مند ہو گے۔
بادشاہ سلامت نے کیوں بلایا ہے؟“ بندریا بولی:” مجھے تو ڈرلگ رہا ہے میں نہیں جاوٴں گی۔
اپنے خوف کو چھپاتے ہوئے بندر بولا۔” ڈرنے کی کیا بات ہے۔ ہم نے کوئی جرم تو نہیں کیا ہے۔
بندریا بولی:” میرے اس بچے کا تعلق انسانوں سے جوہے۔ شیر، چیتے اور بھیڑیے انسانی خون اور گوشت کے شوقین ہوتے ہیں۔ میں تو صدمے سے مرجاوں گی اگر اس بچے کو کچھ ہوا تو ۔ “ یہ کہتے کہتے وہ رو پڑی۔
بندر نے بندریا کو تسلی دی۔”ہم نے اس انسانی بچے کی جان بچا کر ایک نیک کام کیا ہے۔ اللہ نیک کام کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ وہی ہماری اور ہمارے اس بچے کی نگہبانی کرے گا۔
اگلے روز دنوں سہمے سہمے جنگل کے بادشاہ کے دربار میں جا پہنچے۔ سارے جانور بادشاہ سلامت کے دربار میں موجود تھے۔ وہاں پہنچ کر دونوں نے نہایت ادب سے شیر بادشاہ کو سلام کیا۔
آوٴ،آوٴ۔ ہم سب تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے۔ “ شیر بولا۔” یہ بتاوٴ تم نے یہ انسانی بچہ کسی انسانی بستی سے اُٹھایا ہے؟
حضورِ والا! یہ بچہ ہم نے کسی انسانی بستی سے نہیں اُٹھایا۔ یہ ہمیں یہیں جنگل کے کنارے والی نہر سے ملا تھا۔
اچھا۔۔ ! کیا انسانی بچے بھی ہمارے بچوں کی طرح پیدائش کے چند گھنٹوں کے بعد چلنے پھرنے لگتے ہیں کہ آدمی کا یہ بچہ اپنی بستی سے بھاگتا ہوا ہمارے جنگل میں چلا آیا؟
کئی درباری جانور ہنس پڑے۔ شیر نے خونخوار نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا تو سب سہم کر چپ ہو گئے۔
اب شیر نے بندر کو مخاطب کیا:” سچ سچ بتاوٴ اس آدمی کے بچے کو تم کہاں سے لائے ہو؟
بادشاہ سلامت! ہم سچ کہہ رہے ہیں۔ ہمیں یہ بچہ وہیں سے ملاہے۔ “ اس کے بعد اس نے وہ سارا واقعہ کہہ سنایا جو انھوں نے دیکھا تھا۔ پھر بولا” ہم سے اس ننھے بچے کا رونا نہ دیکھا گیا اور ہم نے فوراََ درخت سے نیچے آکر اسے اپنی گود میں اُٹھا لیا۔
شیر نے سب جانورں کی طرف دیکھ کر کہا:” اس بندر اور بندریا نے اس ننھی سی جان کو بچا کر یہ ثابت کر دیا کہ ہم جانور، انسانو ں کی طرح بے درد نہیں ہوتے۔ ہمارے سینوں میں انسانوں سے کہیں محبت بھرا دل ہوتا ہے “۔ اتنا کہہ کرشیر ذرا رُکا پھر اپنی بات آگے بڑھائی:” جو بچوں سے محبت نہیں کرتا وہ حیوان ہے شیطان ہے قابل نفرت ہے اوریہ انسان۔۔۔ اشرف المخلوقات کہلوانے والے یہ لوگ اپنے بچوں پر بھی رحم نہیں کرتے۔ کیوں میاں مٹھو! میں غلط تو نہیں کہہ رہا ہوں؟“ اس نے طوطے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:”تم لوگوں نے تو انسانوں کے بہت قریب سے دیکھا ہے اور تمھارایہ نام بھی انہی لوگوں نے دیا ہے۔
جی ہاں عالم پناہ ! آپ درست فرما رہے ہیں ۔ انسان اپنی انسانیت کا بڑا ڈھنڈوراپیٹتے ہیں مگر ذرا ذرا سی بات پر آپس میں بری طرح لڑتے ہیں۔ انسانی درندگی کا یہ عالم ہے کہ اپنے مخالف کے بچوں تک کو معاف نہیں کرتے۔ ہمیں میاں مٹھو کہنے والے یہ لوگ ہمیں تو تاچشم بھی کہتے ہیں۔جب ہم کسی طرح ان کے پنجرے سے فرار ہو جاتے ہیں تو و ہ ہمیں تو چشم ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ گویا انھوں نے ہمیں قید کر کے ہم پر بڑا احسان کیا تھا۔
جان کی امان پاوٴں تو میں بھی کچھ عرض کروں۔“ ایک کوّا بولا۔
بولو ،کیا کہنا چاہتے ہو۔“ شیر نے کہا۔
انسانوں نے نہایت خطر ناک قسم کے ہتھیار بنائے ہیں۔ جو پلک جھپکتے میں ہزاروں کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ وہ بے دھڑک ان کا استعمال کرتے ہیں اور اپنے جیسے ہزاروں انسانوں کو مار ڈالتے ہیں۔
کوا رُکا تو شیر بولا:” یہ ہے ان کی درندگی کا حال۔ جو وہ ہم کو درندہ اور خونخوار کہتے ہیں مگر ہم تو اپنے جیسے کسی جانور کا شکار کبھی نہیں کرتے۔ کوئی شیر کسی شیر کو ، کوئی بھیڑ یا کسی بھیڑیے کو نہیں مارتا، مگریہ انسان ایسی درندگی کے بعد بھی اشرف المخلوقات کہلاتا ہے۔
میں کچھ عرض کروں اجازت ہے؟ ایک اُلو نے پوچھا۔
اجازت ہے۔
بادشاہ سلامت! انسانوں کے بارے میں جو باتیں کہی گئی ہیں وہ غلط نہیں ہیں مگر سب انسان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ان میں بڑی تعداد میں بہت اچھے انسان بھی ہوتے ہیں جو تمام انسانوں کی بھلائی اوربہتری کے لئے اچھے اچھے کام کرتے ہیں۔ اور بُرے انسانوں کو بُری باتوں سے روکنے کے لئے بڑی جدوجہد کرتے ہیں۔ ان کی بے شمار اچھی باتیں ہیں جن کی وجہ سے اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں۔
دربار ختم ہونے کے بعد بند ر اور بندریا بہت خوش خوش اپنے گھر لوٹے۔ بندر بولا:” دیکھو ہماری نیکی کی بادشاہ نے بھی تعریف کی۔ تم خواہ مخواہ ڈر ہی تھیں۔
ہاں، اللہ کی مہربانی سے ہمارے بچے پر کوئی آنچ نہیں آئی۔
دونوں اپنے بچوں کی طرح اس انسانی بچے کو بھی پالنے لگے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بچہ بڑا ہونے لگا اور بندر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے لگا۔ اب وہ اسے مختلف قسم کے پھل لا کر کھلانے لگے یہ بچہ بھی بندر کے بچوں کی طرح پیروں اور ہاتھوں کے سہارے بھاگنے دوڑنے اور درختوں کی شاخوں پر اُچھلنے کودنے لگا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب وہ اپنی خوراک کا بندوبست خود کرنے لگا اورجہاں اس کا جی چاہتا اکیلے آنے جانے لگا۔ جنگل کے جانور بھی اسے اپنے جیسا جانور سمجھنے لگے تھے ۔
ایک دن ایک شکاری کا گزر اس جنگل کی طرف ہوا تو اچانک اس ک نظر اس انسان نما جانور پر پڑی:” ارے ! یہ کیسا بندر ہے۔ اس کی شکل وصورت تو بالکل انسانوں جیسی ہے ۔“ اس نے دل ہی دل میں کہا۔ وہ ایک جگہ چھپ کر اسے دیکھنے لگا۔
یہ یقینا انسان ہے لیکن اس کی پرورش جنگلی جانوروں کے درمیان ہوئی ہے اس نے سوچا کہ اسے پکڑ کر انسانوں کی آبادی میں لے جانا چاہیے تاکہ وہ دوبارہ انسان بن سکے مگر اسے پکڑنا بڑا مشکل کام تھا۔ وہ انسانی بندر اسے دیکھتے ہی بھاگ جاتا تھا۔
شکاری نے یہ ترکیب نکالی کہ پھل اور کھانے کی مختلف چیزیں لاکر زمین پر ڈال دیتا اور چھپ کر اس پر نظر رکھتا ۔ اس کے ساتھ دوسرے بندر بھی وہاں آنے لگے۔ کئی دنوں کے بعد شکاری کھانے کی کچھ ایسی چیزیں لایا جن میں اس نے بے ہوشی کی دوا ملا دی تھی۔ انھیں کھا کر جب سارے بندر بے ہوش ہو گئے تو شکاری نے اس انسان نمابندر کو اُٹھا کر اپنی جیپ میں ڈالا اور اپنے شہر لے آیا۔ اب اس نے اسے دوبارہ انسان بنانے کے تمام جتن کر ڈالے۔ اسے نہلایا اور انسانوں جیسے کپڑے پہنائے۔ اسے کھانے پینے کی اچھی اچھی چیزیں دینے لگا۔ اس کے سونے کے لئے آرام دہ بستر کا بندوبست کیا مگر یہ سب اس کو اچھا نہیں لگتا تھا وہ اور خوں خاں کر کے اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کرتا۔
شکاری نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح وہ اس کی بات سمجھنے لگے اور اپنی بات سمجھانے لگے مگر اس کی ساری کوشش بے کار ثابت ہوئی۔ ایسا لگتا تھا جیسا اسے انسانوں کی کوئی بات پسند ہی نہیں اور نہ وہ انسانوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ شکاری نے اسے اپنی نگرانی میں رکھا تھا۔ اس کے باوجود ایک دن موقع ملتے ہی وہ انسانوں کی بستی سے جنگل کی طرف بھاگ گیا جہاں اس کے ماں باپ اس کے بغیر اداس تھے۔



بشکریہ: فیضان قادری

فریال نے اپنے بچپن کو ایسے یاد کیا

بات نکلے گی تو دور تلک جاۓ گی۔پر کیسے جاۓ کہ خیالوں کا تانا بانا اس ٹاپینگ کی وجہ سے بکھرے جا رھا ھے۔تو بات تھی یہ اس زمانے کی جب ابھی میں چھوٹی سی تھی۔ابو کی انگلی اور بہن بھائیوں کی انگلی پکڑ کر جنگلوں اور کھیتوں میں نکل جاتے تھے۔ائیرگن ھوتی اور فاختائین اور کبوتر اور مینائیں ھوتین۔میلوں چلتے، چلتے جاتے۔شکار بھی ھوتا اور تفریح بھی۔وہ زمانے اور تھےدیہاتی لوگ اپنے بیچ شہری لوگ دیکھ کر دیدہ دل فرش راہ کر دیتے تھے۔سوۓ بیر کے گھنے درختوں کے نیچے چارپائیاں بچھ جاتیں اور لسی اور کھانا پیش کر دیا جاتا۔اسی طرح گھومتے وقت اور آگے بڑھا اور ھم ذرا اور بڑے ھو گۓ۔ابھ شکار میں مچھلی کا شکار بھی شامل ھو گیا۔سٹیمنا بھی بن رھا تھا اور مچھلی کا شکار صبر سے کام لینا بھی سکھا رھا تھا۔وقت کچھ اور گذرا اب اس میں ھرن خرگوش اور تیتیر کا شکار بھی شامل ھو گیا۔آوارہ گردی کی داغ بیل ڈالی جا چکی تھی۔ابھی پانچویں جماعت میں تھی کے ابو کے کتابوں کے خزانے ھاتھ لگ گے۔ابن صفی کی عمران سیریز کا پورا کلیکشن پڑھ ڈالا۔کتابوں سے دوستی اس زمانے سے شروع ھوی۔اس دوران شکار پکنک پاڑٹیز بھی جاری تھیں۔یعنی آوارا گرد بنانے کا سلسلہ بچپن سے جاری تھا ھر وہ تربییت دی کہ جو گھر مین نچلا نہ بیٹھنے کا عادی بنا ڈالے۔
فریال

ڈبلیو سی:ہاجرہ ریحان

ڈبلیو سی :
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک برطانوی خاتون آسٹریلیا گھومنے گئیں ۔ ۔ ۔ اُن کو آسٹریلیا اتنا پسند آگیا کے انھوں نے وہاں مستقل رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ رہنے کے لئے انھوں نے ایک قصبے کو چُنا جہاں کے لوگ بہت ملنسار اور سیدھے سادھے تھے۔ انھوں نے قصبے کے پوسٹ ماسٹر کی مدد سے ایک چھوٹا سا کمرا اپنے لئے کرایے پر حاصل کر لیا اور اس کے بعد وہ اپنا سامان لینے واپس برطانیہ چلی گئیں ۔
برطانیہ پہنچ کر خاتون کو خیال آیا کے انھوں نے کمرے میں ( W C جو کے واٹر کلوسٹ کا مخفف ہے ) دیکھا ہی نہیں۔ انھوں نے فوراً پوسٹ ماسٹر کو خط لکھا کے وہ دیکھ کر بتائے کے کمرے میں ڈبلیو سی ہے یا نہیں۔ پوسٹ ماسٹر انگریزی میں کمزور تھا ڈبلیو سی کا مطلب اس کی سمجھ میں نہ آسکا اس نے وہاں کے پادری سے ڈبلیو سی کے بارے میں پوچھا ۔ ۔ ۔ پادری کو بھی کچھ معلوم نہ تھا چناں چہ دونوں ڈبلیو سی کے بارے میں معلوم کرنے میں لگ گئے ۔ ۔ ۔ آخر کار انھوں نے اس کا یہ مطلب نکالا کے ڈبلیو سی وے سائیڈ چرچ WaySide Church جو کے قصبے کے نام وے سائیڈ کی وجہ سے وے سائیڈ چرچ کہلاتا تھا ۔
اب پوسٹ ماسٹر نے خاتون کو مطنئین کرنے کے لئے یہ خط لکھ کر روانہ کیا ۔ ۔ ۔
محترم خاتون :
ڈبلیو سی ۔ ۔ ۔ آپ کے گھر سے نو میل کے فاصلے پر ہے ۔ یہ بہت ہی خوب صورت اور گھنے باغ کے درمیان واقع ہے اور ہر اتوار اور جمعرات کو کھلتا ہے ۔ یہ بھی معلوم چلا ہے کے آپ کے ملک میں یہ ہر روز کھلتا ہے ، اسی لئے آپ کو روز جانے کی عادت ہوگی ، مگر اب آپ کو صرف اتوار اور جمعرات کو وہاں جانے کی عادت ڈالنی پڑے گی ۔ آپ کو یہ سُن کر یقیناً خوشی ہوگی کے اکثر لوگ یہاں پکنک منانے بھی آتے ہیں اور سارا دن یہیں گزارتے ہیں۔ میں آپ کو مشورہ دوں گا کے اس جگہ جمعرات کو ضرور جایا کریں کیونکہ جمعرات کو یہاں پیانو بھی بجایا جاتا ہے اور بہت ہی خوبصورت نغمے سُننے کو ملتے ہیں۔ اتوار کے روز یہاں بہت ہجوم ہوتا ہے ایک ایک سیٹ پر پانچ سے چھ لوگ بیٹھ جاتے ہیں اور ان کے مذہبی تاثرات دیکھنے کی چیز ہوتے ہیں۔ آپ کو یہ پڑھ کر خوشی ہوگی کے میری بیٹی کی شادی بھی ڈبلیو سی میں ہی ہوئی تھی۔
اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے لئے پہلے ہی سے ایک ایسی سیٹ بک کروا لیتا ہوں جہاں سے آپ سب کو دیکھ سکیں گی ۔ بچوں کو یہاں کسی اور دن آنے کی اجازت ہے تاکہ وہ اپنے بڑوں کو اس اہم وقت پر تنگ نہ کریں ۔
اُمید ہے آپ بخیر ہوں گی ۔
آپ کا خادم،
پوسٹ ماسٹر۔اجرہ ریحان

لبنی طاہر کا بچپن

جب میں چھوٹی تھی ...
میں چھٹی یا ساتویں جماعت میں تھی اور یہ وہ عمر تھی کہ بڑوں کی محفل اچھی لگنے لگی تھی ..امّی بچوں کی تربیت کے معاملے میں سخت تھیں ...امی مجھے بڑوں کی محفل میں بیٹھا دیکھتیں تو ٹوک دیتیں ...اور پھر ایک دن
ایک دن امی کی کوئی سہیلی آئیں ... وہ بہت اچھا تیار ہوئی ہوئیں تھیں اور میں ان کا میک اپ اور جیولری شوق سے دیکھنے میں محو تھی اتنے میں امی پہ نظر پڑی تو امی نے آنکھوں سے اشارہ کیا کہ باہر جاؤ ..میں نے سرا سر اگنور کیا ... تھوڑی دیر بعد امی نے کہا دیکھو چائے بن گئی ہے تو شریفاں سے کہو لے آئے ..اب میں آنٹی شریفاں کو کہہ کر واپس ڈرائینگ روم میں پھر اس آنٹی کے ساتھ جا بیٹھی .. ایک بار پھر امی کی آنکھوں کا اشارہ موصول ہوا جسے میں نے ایک بار پھر اگنور کیا .. اور پھر چائے ی کے تھوڑی دیر بعد آنٹی چلی گئیں ... امی ان کو گیٹ تک چھوڑنے کے بعد واپس آئیں تو امی نے مجھے آواز دی اور پھر امی کے تھپڑ ..ایک کے بعد ایک ..ٹھاہ .. ٹھاہ .. امی ساتھ ساتھ بول رہی تھیں اب بیٹھو گی بڑوں میں
میرے ڈیڈی ہم سے بے انتہا پیار کرتے تھے ... اور بقول امی کے وہ ہمیں بگاڑ رہے تھے اس لیئے جلاد کا شعبہ امی نے سنبھالا ہوا تھا 

لبنی

بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گۓ : دیا خلیل


اس بات میں کوئی شک بھی نہیں۔ پہلے زمانے میں بچے اماں ابا کے ایک نظر دیکھنے پر وہیں بیٹھ جایا کرتے تھے اور اب نظر تو دور کی بات ڈانٹ ڈپٹ سے بھی کام نہیں چلتا۔ پہلے مائیں ڈھیروں ڈھیر بچے سنبھال لیتی تھیں اور اب دو بچے سنبھالنا مشکل۔ ۔ اج کل کے بچے حاظر جواب بھی بہت ہیں ۔ میرا بھانجا بچپن سے ہمارے ساتھ رہتا ہے ۔ ایک سال کا تھا پر اپنے اماں ابا کے ساتھ جانے کا نام نہیں لیتا تھا ۔ بھئی جاتا بھی کیسے یہاں اسکی چھ عدد خالہ بھانجا صاحب کبھی کسی کی گود میں اور کبھی کسی کی ۔ پر اتنے لاڈ کے باوجود بھی وہ انتہائی سلجھا ہوا بچہ تھا ۔ اور ماشااللہ ذہین بھی بلا کا ۔ ۔ چار سال کا تھا تو اسے اپنے چاچو کی شادی پر شہ بالا بننے کا موقع ملا ۔ اب آتے جاتے میرے انکل اس سے پوچھتے حزیفہ صاحب شہ بالا کا کیا مطلب ہے؟ ۔ ۔ ایک بار پوچھا حزیفہ صاحب چپ انیوں نے پھر پوچھا حزیفہ شہ بالا کا مطلب تو بتاؤ یار ۔ ۔ حزیفہ صاحب پھر چپ ۔ ۔ تیسری بار پوچھا تو حزیفہ صاحب بولے
بغیر دلہن کے دلہا ۔ ۔ ۔ دیا خلیل 

ہمدردی: علامہ محمد اقبال

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بيٹھا
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اڑنے چگنے ميں دن گزارا
پہنچوں کس طرح آشياں تک
ہر چيز پہ چھا گيا اندھيرا
سن کر بلبل کی آہ و زاری
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا
حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
کيڑا ہوں اگرچہ ميں ذرا سا
کيا غم ہے جو رات ہے اندھيری
ميں راہ ميں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے ديا بنايا
ہيں لوگ وہی جہاں ميں اچھے
آتے ہيں جو کام دُوسرں کے


ایک تھا تیتر ایک بٹیر: نا معلوم

ایک تھا تیتر ایک بٹیر 
لڑنے میں تھے دونوں شیر 
لڑتے لڑتے ہو گئ گم 
ایک کی چونچ اور ایک کی دُم

گڑیا: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم

گُڑیا
کبھی غُل مچاتی ہے گُڑیا
ہر اِک طرح سے دل لبھاتی ہے گُڑیا
نہ پوچھو مزاج اس کا نازک ہے کتنا
ذرا کچھ کہو ، منہ بناتی ہے گُڑیا
وہ روئے تو میں چُپ کراتی ہوں اس کو
میں روؤں تو مجھ کو ہنساتی ہے گُڑیا
جو گھر میں کوئی غیر آئے تو فوراً 
دوپٹے سے منہ کو چھُپاتی ہے گُڑیا
وہ بلبل ہے میری ، وہ مینا ہے میری
مجھے میٹھے گانے سناتی ہے گُڑیا
مجھے رات کو نیند آتی ہے جس دم
مری چارپائی بچھاتی ہے گُڑیا
کسی اور کے ساتھ جاتی نہیں ہے
مِرے ساتھ بازار جاتی ہے گُڑیا
کبھی میں جو اس کو بلاتی نہیں ہوں
تو خود آ کے مجھ کو بلاتی ہے گُڑیا
اکیلا مجھے چھوڑتی ہی نہیں ہے
مجھے ساتھ اپنے سلاتی ہے گُڑیا
کوئی اور دیکھے تو لگتی ہے رونے
مجھے دیکھ کر مسکراتی ہے گڑیا
کسی کے بھی وہ ساتھ رہتی نہیں ہے
عجب شان اپنی دکھاتی ہے گُڑیا
کوئی بیٹھ جائے تو اٹھ بیٹھتی ہے
جو آتا ہے کوئی تو جاتی ہے گُڑیا
سبق میرا مجھ سے وہ سنتی ہے آ کر
سبق اپنا مجھ کو سناتی ہے گُڑیا
جو اٹھ بیٹھتی ہے کبھی منہ اندھیرے
تو رو رو کے سب کو جگاتی ہے گُڑیا
بس اب اور تُم اُس کی باتیں نہ پوچھو
بس اب چُپ رہو تُم کہ آتی ہے گُڑیا


لوری: سوجا میری آنکھ کے تارے : نگین خالد

لوری
سو جا میری آنکھ کے تارے
سو جا مجھ کو جان سے پیارے
تجھ کو اپنی گود میں لے کر
بوسہ تجھ کو پیار کا دے کر
خود کو تجھ پر نندیا وارے
سو جا میری آنکھ کے تارے
تارے سارے گرد ہوں تیرے
لیتی ہوں پریاں بھی پھیرے
چندا تیری نظر اُتارے
سو جا میری آنکھ کے تیرے
جگنو تجھ سنگ کھیلنے آئیں
تجھ پر اپنی لوَ وہ لُٹائیں
خواب دکھائیں تجھ کو نیارے
سو جا میری آنکھ کے تارے
چرخ پہ لے کر خواب میں جھولے
ہاتھ سے تو چندا کو چھو لے
تیرا بستر ہوں بادل سارے
سوجا میری آنکھ کے تارے
ماں کا تو ہے جان کا ٹکڑا
چاند سا روشن تیرا مکھڑا
تجھ پہ بابا جان ہے وارے
سو جا میری آنکھ کے تارے

نگینؔ خالد