ھمارے ابو ھمیں اپنی زندگی کی بہت سی کہایناں دلچسپ پیرائے میں سناتے تھے
ایک کہانی جو آج تک چل رہی ھے ختم ھی نہیں ھوتی
کہانی
بچو ایک دفعہ کا زکر ھے ایک شکاری تھا ۔۔۔اس کے بیوی اور بچے اس کے ساتھ ھنسی خوشی رہتے تھے ۔۔۔۔۔۔ وہ انہیں شکار ۔۔پکنک ۔۔۔۔۔پر لے کر جاتا تھا ۔۔۔وہ گھر سے کھانا بنا کر لے جاتے اور کبھی مچھلی کے شکار پر ھوئے تو مچھلی بھی بھون کر کھائی نہ ملی تو صبر سکون سے پراٹھوں اچار اور قیمہ کے ساتھ کھانا کھا کر ھنسی خوشی گھر واپس آ جاتے تھے ۔۔۔کبھی تیتر کے شکار پر گئے تو تیتر بھون کر جنگل میں منگل منایا کرتے تھے ۔
کرنا خدا کا کیا ھوا کہ ایک دن وہ شخص اپنے بچوں کو لے کر پیدل ٖفاختاؤن کے اور کبوتروں کے شکار پر گیا ۔وہ چلتے رہے ۔۔راستے میں کچھ اچھے مہربان دیہاتی لوگ ملے جنھوں نے انہیں کھانا کھلایا اور انہیں بڑی عزت دی ۔۔۔لیکن اس شخص نے اپنے بچوں کو بتایا کہ بہت جلد ایک ایسا زمانہ آنے والا ھے جب یہ سب اقدار باقی نہیں رہیں گی۔۔۔۔۔پھر وہ شخص اور بچے آگے چلتے ھیں انہیں کچھ فاختایں بھی ملیں انہوں نے ان کا شکار کیا اور آگے چلتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔ا
اتنا سنا کر ھممارے ابو چپ ھو گے ۔۔ھم بچے جو جانتے تھے کہ یہ کہانی ھماری اور ھمارے ابو کی ھی ھے لیکن بے تابی سے منتظر تھے کہ وہ آگے سنائیں لیکن وہ خاموش اور اپنی کتاب اٹھا لی ۔۔۔۔۔ھم نے پوچھا کہ ابو آگے کیا ھوا تو کہنے لگے کہ بھئی وہ ابھی چل رہے ھیں جب چلنا ختم ھو گا تو آگے سناؤں گا ۔۔ھم بچے ادھر ادھر ھو گے کہ اب باقی کل سنیں گے ۔۔۔جب کل آی تو ھم پھر بے تابی سے ابو کے گرد اکھٹے ھو گئے کہ ابھی ھمارا خیال تھا کہ کہانی شروع ھوئی یقینا آگے کوی مزے دار واقعہ آئے گا۔
ابو نے ھمیں دیکھ کر کتاب رکھی اور کہا ھاں بھئی تو پھر یوں ھوا کہ وہ لوگ چلتے رہے ۔۔۔چلتے رہے ۔۔۔یہاں تک کہ ایک آرمی کے گولف گراونڈ پر پہنچ گے جہاں ٹیوب ویلز بھی لگے ھوئے تھے ،اور سر سبز اونچے نیچے میدان بھی لگے ھر طرف اپنے سبزے کی بہاریں دکھا رہے تھے اس آدمی نے اپنے بچوں سے کہا کود جاو ٹیوب ویل میں اور بچے کود گے خوب سویمنگ ھوی وہاں پھر بچے تھک گے تو ساتھ لایا ھوا کھانا دیہاتیوں کی لسی کے ساتھ کھایا گیا ۔۔۔۔اور انہوں نے پھر چلنا شروع کر دیا اور وہ چلتے رہے چلتے رہے ۔۔۔چلتے رہے ۔۔۔چلتے رہے ۔۔۔چلتے رہے ۔۔جب چلتے رہے کی گردان بہت زیادہ ھو گئی تو ھم نے پوچھا ابو آگے کیا ھوا ۔۔۔تو کہنے لگے کہ بھی ابھی ھم چل رہے ھیں اب کل آنا
وہ کل روز آتی تھی اور وہ روز تھوڑا اور آگے بڑھا کر زندگی کی کوئی خوشی ھماری جھولی میں ڈال دیتے اور پھر کہتے کہ ۔۔۔۔وہ چلتے رہے ۔۔۔چلتے رہے ۔۔۔جب ھم زیادہ تنگ پڑ گئے تو آخر ھم نے پوچھا کہ بھی آخر کتنے دن اور چلیں گے تو کہنے لگے بھی بچو ھمیں کیا پتا ابھی تو ھم چل رہے ھیں دیکھو آگے کیا ھوتا ھے ،،،اسی چلتے چلتے میں ھم اس کہانی کو بھولنے لگے اور زندگی چلتی رہی ۔۔۔۔۔۔ آج سے کچھ سال پہلے ابو کا چلنا تو ختم ھو گیا لیکن یہ کہانی ابھی تک چلی جا رہی ھے ھم چل رہے ھیں چل رہے یں اور اپنے بچوں کے بچپن میں میں نے بھی انہیں یہ کہانی سنائی اور وہ بھی ابھی اپنی اسی کہانی کے اسیر بنے ھوے چل رہے ھیں چل رھیں ایک کا چلنا ختم ھوا ان بچوں میں سے اور وہ بھی میرے ابو کی طرح اپنی ابدی منزل کو پچھلے سال پہنچ گئی ،باقی ھم بچے اور ھمارے بچے ابھی تک چلتے جا رہے ھیں ۔۔۔چلتے گئے چلتے گئے ۔۔۔چلتے گئے۔۔۔۔۔۔۔آج میں بڑی بہت بڑی ھو گئی ھوں لیکن وہ بچپن کی کہانی ابھی تک چلتی جا رہی ھے ۔۔۔چلتی جا رہی ھے ۔۔۔۔شاید وہی ابدی منزل اس کا اختتام ھو گی اور آگے کے واقعات وہیں جا کر سنیں گے ھم اپنے ابو سے انشاللہ ۔۔۔۔۔۔:)
No comments:
Post a Comment