کسی گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے- جن کے نام اکبر اور اصغر تھے- اکبر خوشحال تھا جبکہ اصغر محنت مزدوری کر کے گزر بسر کرتا تھا- ایک دن اصغر جنگل سے واپس آ رہا تھا کہ اسے ایک بوڑھی عورت ملی جو بہت مشکل سے اپنا سامان اٹھائے جا رہی تھی- اصغر نے اس کو گھر تک پہنچایا اور جنگل سے توڑے ہوئے ہھل بھی کھانے کو دیے بوڑھی عورت نے خوش ہو کر اسے ایک چکی دی - اصغر نے کہا کہ میں اس کا کیا کروں گا؟ بوڑھی عورت نے کہا یہ ایک جادؤئی چکی ہے اس سے جس چیز کی خواہش کرو گے فوراً حاضر ہو جائے گی- آخر وہ چکی لے کر گھر چل پڑتا ہے اور لے جا کر اپنی بیوی کو دیتا ہے- وہ اسے آزمانے کے لیے قیمتی کپڑوں کی فرمائش کرتی ہے تو وہ چکی سے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں جب اصغر چکی کو روکنے والا لفظ بولتا ہے تو کپڑا نکلنا بند ہو جاتا ہے- اب تو دونوں میاں بیوی بہت خوش ہوتے ہیں جس کھانے کی خواہش کرتے فوراً حاضر ہو جاتا- اب تو چھوٹے بھائی کے حالات ہی بدل گئے اور وہ بہت زیادہ خوشحال ہو گیا- ایک اکبر نے اس سے سارا ماجرا پوچھا تو اصغر نے سب واقعہ بتا دیا اب اکبر کو بھی تجسس ہوا کہ میں بھی اسے استعمال کروں اس نے چکی ادھار مانگی تو چھوٹا بھائی جو اب بہت خوشحال تھا اس نے کچھ دن کے لیے اسے چکی دے دی- اکبر چکی لے کر گھر آیا تو اچانک اسے بحری سفر جانا پڑا وہ چکی بھی ساتھ میں بحری جہاز پہ لے گیا اور اسے ملازموں کے حوالے کیا اب ان کا سفر شروع ہو گیا دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا ملازم کھانا لایا تو اسے کھانے میں نمک کم لگا اور اتفاق سے ملازم نمک لانا بھول گئے تھے اچانک اکبر کو چکی کا خیال آیا تو اس نے چکی کو حکم دیا کہ "نمک چاہیئے" یہ سننا تھا کی چکی گھومنا شروع ہوئی اور دھڑا دھڑ نمک نکلنا شروع ہو گیا اور ڈھیر لگ گیا اب اس نے بہتیرا کہا رک جاؤ، اور نہیں چاہیئے لیکن چکی نے نا رکنا تھا نا رکی کیونکہ وہ جلدی جلدی میں چکی کو روکنے والا لفظ پوچھنا ہی بھول گیا تھا- اب کیا تھا کہ چکی نمک نکالتی جا رہی ہے اور وہ اسے روکنے کی کوشش میں اور ملازم ادھر ادھر بھاگ دوڑ کرتے ہوئے.. پورے جہاز میں نمک بھرتا چلا گیا جس کے نتیجے میں جہاز ڈوب گیا اور سمندر کی تہہ میں چلا گیا جہاں وہ چکی آج بھی نمک نکالتی جا رہی ہے.. یہی وجہ ہے کہ سمندر کا پانی نمکین ہے
بزم ادب کے تحت بچوں کے ادب کا ہفتہ 18 مئی سے 23 مئی تک منایا گیا، جس میں --- ارکان نے بھرپور شرکت کی۔ معزز ارکان نے اپنے بچپن کی یادیں ، بچپن میں سنی ہوئی کہانیاں، نظمیں اور دیگر یادیں شئیر کیں۔ ادارہ تمام معزز اراکین کا شکرگزار ہے
Monday, May 25, 2015
سمندر کیوں نمکین ہے: نا معلوم
کسی گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے- جن کے نام اکبر اور اصغر تھے- اکبر خوشحال تھا جبکہ اصغر محنت مزدوری کر کے گزر بسر کرتا تھا- ایک دن اصغر جنگل سے واپس آ رہا تھا کہ اسے ایک بوڑھی عورت ملی جو بہت مشکل سے اپنا سامان اٹھائے جا رہی تھی- اصغر نے اس کو گھر تک پہنچایا اور جنگل سے توڑے ہوئے ہھل بھی کھانے کو دیے بوڑھی عورت نے خوش ہو کر اسے ایک چکی دی - اصغر نے کہا کہ میں اس کا کیا کروں گا؟ بوڑھی عورت نے کہا یہ ایک جادؤئی چکی ہے اس سے جس چیز کی خواہش کرو گے فوراً حاضر ہو جائے گی- آخر وہ چکی لے کر گھر چل پڑتا ہے اور لے جا کر اپنی بیوی کو دیتا ہے- وہ اسے آزمانے کے لیے قیمتی کپڑوں کی فرمائش کرتی ہے تو وہ چکی سے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں جب اصغر چکی کو روکنے والا لفظ بولتا ہے تو کپڑا نکلنا بند ہو جاتا ہے- اب تو دونوں میاں بیوی بہت خوش ہوتے ہیں جس کھانے کی خواہش کرتے فوراً حاضر ہو جاتا- اب تو چھوٹے بھائی کے حالات ہی بدل گئے اور وہ بہت زیادہ خوشحال ہو گیا- ایک اکبر نے اس سے سارا ماجرا پوچھا تو اصغر نے سب واقعہ بتا دیا اب اکبر کو بھی تجسس ہوا کہ میں بھی اسے استعمال کروں اس نے چکی ادھار مانگی تو چھوٹا بھائی جو اب بہت خوشحال تھا اس نے کچھ دن کے لیے اسے چکی دے دی- اکبر چکی لے کر گھر آیا تو اچانک اسے بحری سفر جانا پڑا وہ چکی بھی ساتھ میں بحری جہاز پہ لے گیا اور اسے ملازموں کے حوالے کیا اب ان کا سفر شروع ہو گیا دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا ملازم کھانا لایا تو اسے کھانے میں نمک کم لگا اور اتفاق سے ملازم نمک لانا بھول گئے تھے اچانک اکبر کو چکی کا خیال آیا تو اس نے چکی کو حکم دیا کہ "نمک چاہیئے" یہ سننا تھا کی چکی گھومنا شروع ہوئی اور دھڑا دھڑ نمک نکلنا شروع ہو گیا اور ڈھیر لگ گیا اب اس نے بہتیرا کہا رک جاؤ، اور نہیں چاہیئے لیکن چکی نے نا رکنا تھا نا رکی کیونکہ وہ جلدی جلدی میں چکی کو روکنے والا لفظ پوچھنا ہی بھول گیا تھا- اب کیا تھا کہ چکی نمک نکالتی جا رہی ہے اور وہ اسے روکنے کی کوشش میں اور ملازم ادھر ادھر بھاگ دوڑ کرتے ہوئے.. پورے جہاز میں نمک بھرتا چلا گیا جس کے نتیجے میں جہاز ڈوب گیا اور سمندر کی تہہ میں چلا گیا جہاں وہ چکی آج بھی نمک نکالتی جا رہی ہے.. یہی وجہ ہے کہ سمندر کا پانی نمکین ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment