اچانک چچا تیز گام کی آنکھ کھل گئی۔
’’حیرت ہے، کمال ہے، تعجب ہے بلکہ افسوس ہے۔ آج ہماری آنکھ اتنی جلدی
کیسے کھل گئی۔ ‘‘ وہ حیرت سے بڑبڑائے۔ ویسے تو عموماً چچا تیز گام نمازِ فجر پڑھ
کر دوبارہ سوتے اور سات بجے تک اٹھ جاتے تھے کیوں کہ محمود اور عروج فاطمہ نے
اسکول جانا ہوتا تھا۔ اس لیے بیگم ناشتہ جلد ہی تیار کر دیتی تھیں، لیکن آج چونکہ
اتوار کا دن تھا، محمود اور عروج فاطمہ کی چھٹی ہونے کی وجہ سے اتوار کو ناشتہ بھی
دیر سے بنتا تھا۔ اس لیے چچا تیز گام بھی دیر ہی سے اٹھتے تھے۔
’’جمن۔۔! او۔۔ جمن۔۔!‘‘ چچا تیز گام کو اپنی آنکھ کھلنے کی وجہ سمجھ
نہ آئی تو انہوں نے بستر پر بیٹھے بیٹھے ہانک لگائی۔
’’جی۔۔ مالک۔۔! جی مالک!‘‘
’’جی مالک کے بچے۔۔! یہ آج ہماری آنکھ اتنی جلدی کیسے کھل گئی؟‘‘ چچا
جمن پر برس پڑے۔
’’مم۔۔ مالک۔۔! بب۔۔ بھلا۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں یہ تو آپ اپنی آنکھ
سے پوچھیے۔ ‘‘ جمن گھبرا کر بولا۔
’’وہ تو خیر ہم ضرور پوچھیں گے، ارے ہائیں کیا کہا۔۔! آنکھ سے
پوچھوں، دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا۔ ہم آنکھ سے بھلا کیسے پوچھ سکتے ہیں ؟‘‘چچا
تیز گام نے جمن کو آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔
’’مم مالک۔۔! وہ۔۔ وہ۔۔ میرا مطلب۔۔‘‘ جمن سے کوئی بات نہ بن پڑی۔
’’کیا مطلب تھا تمہارا؟ ارے۔۔ ارے، یہ کیا!‘‘
چچا تیز گام اچانک اچھل
پڑے۔ گول سی کوئی چیز کھڑکی سے ہوتی ہوئی چچا کے سر سے ٹکرائی۔ وہ تو شکر تھا کہ
چچا تیز گام نے بیدار ہوتے ہی اپنی پھندنے والی ٹوپی پہن لی تھی۔ چوں کہ وہ چیز
چچا کے سر پر رکھی ٹوپی سے ٹکرائی اور ٹوپی چچا تیز گام کے سر سے اڑ کر دُور جا
گری تھی۔ چچا تیز گام اور جمن نے گھبرا کر اُس چیز کی طرف دیکھا، وہ کرکٹ کی ہارڈ
بال تھی۔
’’اُف مالک! اگر آپ کے سر پر ٹوپی نہ ہوتی تو۔۔‘‘ جمن خوف سے جھرجھری
لیتے ہوئے بولا۔
’تو کیا ہونا تھا۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔ کیوں کہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ
ہمارے سر پر ٹوپی نہ ہو یہ ٹوپی تو ہماری پہچان ہے پہچان۔۔‘‘ چچا تیز گام بڑے فخر
سے اپنی ٹوپی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔
’’ارے اس گیند کو تو ہم بھول ہی گئے۔۔ یہ یہاں کہاں سے آ گئی۔۔؟‘‘
’’مالک۔۔ وہ محمود اپنے دوستوں کے ساتھ گلی میں کرکٹ کھیل رہا ہے،
لگتا ہے یہ گیند انہیں کی ہے۔ ‘‘ جمن نے بتایا۔
’’ہوں۔۔ تو ہماری آنکھ بھی ان کے ہی شور کرنے سے کھلی ہے۔۔ گیند اور
ٹوپی ذرا ہمیں پکڑاؤ ہم محمود میاں اور اُن کے دوستوں کی خبر لیتے ہیں۔ ‘‘ وہ ٹوپی
سر پر سجائے اور گیند ہاتھ میں پکڑے کمرے سے باہر آئے۔ دروازے پر محمود اور اُس کے
دوست پہلے ہی گیند لینے کے لیے کھڑے تھے۔
’’چچا تیز گام۔۔! چچا تیز گام۔۔! ہماری گیند دے دیجئے۔ ‘‘
چچا تیز گام کو دیکھتے
ہی سب لڑکے پکار اٹھے۔
’’ارے برخوردارو! گلی بھی کوئی کرکٹ کھیلنے کی جگہ ہے۔ ‘‘ چچا تیز
گام بولے۔
’’ابا جان! ہمارے علاقے میں کوئی گراؤنڈ تو ہے نہیں، اب اگر ہم گلی
میں نہ کھیلیں تو اور کہاں کھیلیں۔ ‘‘ محمود نے جواب دیا۔
’’ارے بھئی ضروری تو نہیں تم کرکٹ ہی کھیلو۔ تم کوئی اور کھیل بھی تو
کھیل سکتے ہو۔ بھلا کر کٹ بھی کوئی کھیل ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بُرا سا منہ بنا کر
بولے۔
’’چچا جی! آپ کو کیا پتا کرکٹ کتنا زبردست کھیل ہے، آپ نے کبھی کرکٹ
جو نہیں کھیلی۔ ‘‘ ایک لڑکا بولا۔
’’جمن۔۔! سنا تم نے، یہ آج کے لونڈے ہمیں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کرکٹ
کا پتا نہیں۔ ارے برخودارو! اپنے وقت میں ہم اپنی ٹیم کے کپتان ہوا کرتے تھے،
کپتان۔۔؟‘‘
’’ابا جان! کیا آپ بھی کرکٹ کھیلا کرتے تھے؟‘‘ محمود نے حیرت کا
اظہار کیا۔ جمن اور تمام بچے بھی حیرت سے چچا کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اُن کے لیے یہ
ایک نئی بات تھی۔
’’اور نہیں تو کیا، ہمارے چھکے تو پورے علاقے میں مشہور تھے۔ ‘‘
’’مالک۔۔! پھر تو آپ ماشاء اﷲ کرکٹ کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ ‘‘ جمن بول
اُٹھا۔
’’ہاں۔۔ہاں ہماری ٹیم کی جیت کا دارومدار ہی ہم پر ہوتا تھا۔ ایک
مرتبہ ہمارے گاؤں کا دُوسرے گاؤں والوں کے ساتھ میچ تھا۔ ہماری ٹیم کو جیتنے کے
لیے ایک اوور میں 40 رنز کی ضرورت تھی اور آخری بلے باز بھی ہم ہی تھے۔ بس پھر ہم
نے وہ چھکے لگائے وہ چھکے لگائے کہ سب عش عش کر اٹھے اور ہم نے ایک اوور میں 40
اسکور پورا کر دیا۔ ‘‘
چچا تیز گام اپنی کرکٹ
کی یادیں سناتے ہوئے بولے۔
’’کیا!!‘‘ یہ سن کر سب حیرت سے چلا اٹھے۔
’’لیکن ابا جان۔۔! ایک اوور میں تو صرف چھ گیندیں ہوتی ہیں۔ آپ نے چھ
گیندوں میں 40 اسکور کیسے بنا لیا؟‘‘ محمود نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہم نے ہر گیند پر چھکا لگایا اور اسکور پورا ہو گیا۔ ‘‘
’’لیکن چچا تیز گام چھ گیندوں پر چھ چھکے لگانے سے بھی 40 اسکور پورا
نہیں ہوتا بلکہ چھتیس بنتا ہے۔ ‘‘ ایک لڑکا بولا۔
’’بھئی ایک گیند وائٹ اور ایک نو بال بھی تو ہوئی تھی۔ ‘‘ چچاتیز گام
بھلا کہاں ہار ماننے والے تھے۔
’’آپ تو چھپے رستم نکلے۔ ابھی کچھ دیر بعد یونیورسٹی گراؤنڈ میں ایک
ٹیم کے ساتھ ہمارا میچ ہے۔ ابھی ہم اُسی میچ کی پریکٹس کر رہے تھے۔ آپ ہمارے
امپائر بن جائیں کیوں کہ ہمارے پاس کوئی اَمپائر نہیں ہے۔ ‘‘ محمود کی ٹیم کے
کپتان ارسلان نے کہا۔
’’کیا کہا۔۔ ہم اور اَمپائر۔ نا۔۔ بابا۔۔ نا۔۔ بہت عرصہ ہوا ہم کرکٹ
چھوڑ چکے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام امپائر بننے کا سن کر گھبرا کر بولے۔
’’پلیز۔۔ پلیز چچا تیز گام! پلیز۔ ‘‘ ارسلان نے بلند آواز میں کہا تو
سب لڑکے بھی یک زبان ہو کر بولے:
’’پلیز چچا تیز گام مان جائیں۔ ‘‘
’’اچھا۔۔ بابا۔۔ اچھا۔۔ ٹھیک ہے۔ ‘‘ آخر اُن کو بچوں کی بات مانتے ہی
بنی۔
کچھ دیر بعد چچا تیز
گام اَمپائر بنے گراؤنڈ میں کھڑے تھے۔
جیسے ہی باؤلر نے پہلی
بال کروائی چچا تیز گام نے جلدی سے نو بال کا اشارہ دیتے ہوئے اپنا دایاں ہاتھ
پھیلا دیا۔
’’یہ تو ٹرائی بال تھی۔ ‘‘ باؤلر نے حیرت سے چچا تیز گام کی طرف
دیکھا۔
’’ہم بھی تو یہی اشارہ کر رہے تھے کہ یہ نو بال ہے مطلب یہ گیند نہیں
ہے۔ ‘‘
چچا تیز گام بولے۔
باؤلر نے سمجھنے کے سے
انداز میں سر ہلایا اور دوبارہ باؤلنگ کروانی شروع کی۔ کچھ دیر تو چچا تیز گام اس
کی باؤلنگ دیکھتے رہے، لیکن پھر چچا تیز گام نے یوں فضول میں کھڑا رہنا بہتر نہ
سمجھا۔ اب جیسے ہی بلے باز نے زور سے گیند کو ہٹ لگائی اور گیند فضا میں بلند ہوئی
تو چچا تیز گام نے فوراً اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی اُوپر اٹھا لی۔
’’اوہ۔۔ چچا تیز گام۔۔ یہ تو چھکا ہے۔ اور آپ آؤٹ ہونے کا اشارہ کر
رہے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام کو اشارہ دیتے دیکھ کر بلے باز چلا اٹھا۔
’’اوہ۔۔ اچھا۔۔ اچھا۔۔ وہ دراصل ہمارے کان میں خارش ہو تھی۔ اس لیے
ایک ہاتھ سے ہم کان میں خارش کر رہے تھے۔ ‘‘ چچا تیز گام دونوں ہاتھوں کی انگلیاں
بلند کرتے ہوئے بولے۔
باؤلر نے اگلی گیند
کروائی تو بلّے باز نے گیند کو ہلکی سا پُش کیا اور رن لینے کے لیے دوڑتے ہوئے
اپنے ساتھی بلے باز کو پکارا: ’’بھاگو۔۔‘‘
چچا تیز گام سمجھے شاید
انہیں بھاگنے کے لیے کہا ہے، انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور دوڑ پڑے۔
’’چچا تیز گام! آپ کیوں دوڑ رہے ہیں ؟ میں نے تو اپنے ساتھی بلے باز
کو دوڑنے کے لیے کہا تھا۔ ‘‘
’’دھت تیرے کی، ہم سمجھے تم نے ہمیں کہا ہے۔ ایسے ہی ہماری دوڑ لگوا
دی۔ ‘‘ چچا تیز گام جھلا کر واپس اپنی جگہ پلٹے۔ آخر خدا خدا کر کے پہلی ٹیم کے
اوورز مکمل ہوئے اب دُوسری ٹیم کو وقفہ کے بعد کھیلنا تھا۔
’’ہم سے نہیں ہوتی یہ امپائرنگ۔۔ بھلا یہ بھی کوئی کام ہے، بندہ بت
کی طرح ایک جگہ کھڑا رہے۔ ‘‘ چچا تیز گام جھلا کر بولے۔
’’تو پھر آپ ہماری طرف سے بیٹنگ کر لیں۔ ہمارا ایک کھلاڑی ویسے بھی
فیلڈنگ کرتے ہوئے زخمی ہو گیا ہے۔ ‘‘ ارسلان بولا۔
’’ابا جان! آپ ماشاء اﷲ تجربے کار کھلاڑی ہیں۔ چوکے چھکے لگائیں گے
تو ہم میچ آسانی سے جیت جائیں گے۔ ‘‘ محمود بولا۔
’’چوکے، چھکے لگانا تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ‘‘
پھر ارسلان نے دُوسری
ٹیم کے کپتان سے چچا کے کھیلنے کے بارے میں بات کی تو انہوں نے کوئی اعتراض نہ
کیا۔
’’آپ کو ہم بیٹنگ کے لیے آخر میں بھیجیں گے کیوں کہ آپ ماشاء اﷲ چوکے
چھکے لگاتے ہیں۔ ‘‘ ارسلان نے کہا۔
’’اُس وقت تک ہم بھلا کیا کریں گے؟‘‘ چچا تیز گام تلملا کر بولے کیوں
کہ فارغ بیٹھنے سے اُن کو کوفت سی ہوتی تھی۔
’’اُس وقت تک چچا ہماری طرف سے فیلڈنگ اور باؤلنگ کریں گے آخر یہ
ہمارے بھی تو چچا ہیں۔ ‘‘ دُوسری ٹیم کا کپتان بولا۔
’’ہاں۔۔ ہاں۔۔ کیوں نہیں۔ ہم تو سب کے ہی چچا ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام
زور سے اپنا سر ہلاتے ہوئے بولے۔
باؤلنگ کے لیے پہلا
اوور ان ہی کو دیا گیا۔ جیسے ہی میچ شروع ہوا چچا تیز گام فوراً رن اپ لینے کے لیے
دوڑے، لیکن جیسے ہی انہوں نے گیند کروانی چاہی اُن کا ہاتھ فضا ہی میں جھول کر رہ
گیا۔ کیوں کہ جلدی میں وہ گیند لینا بھول گئے تھے۔
چچا کی اس حرکت پر سب
لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔
’’ارے بھئی۔۔ ہمیں گیند تو پکڑا دو۔ ‘‘ چچا تیز گام کھسیانے سے ہو کر
بولے۔ پھر انہوں نے گیند جس تیزی سے بلے باز کی طرف پھینکی تھی اُس سے کہیں زیادہ
تیزی سے وہ فضا میں بلند ہو کر باؤنڈری لائن سے باہر جا گری۔
’’چچا تیز گام۔۔! دھیان سے۔۔ پہلے ہی گیند پر چھکا کوئی نیک شگون
نہیں۔ ‘‘ ایک کھلاڑی چلّایا۔
’’ارے یہ گیند تو میں نے بچہ سمجھ کر ویسے ہی کروائی تھی۔ اب دیکھنا
دُوسری گیند پر آؤٹ نہ کیا تو پھر کہنا۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے
لیکن وہ اوور مکمل ہونے
تک چار چوکے اور دو چھکے کھا چکے تھے۔ میچ کافی دل چسپ ہو گیا تھا۔ پہلی ٹیم نے
120 رنز بنائے تھے۔ محمود کی ٹیم 100 رنز بنا چکی تھی۔ اب میچ جیتنے کے لیے انہیں
20رنز کی ضرورت تھی۔ جب کہ ابھی دو اوورز کا کھیل باقی تھا۔
ٹیم کے 9 کھلاڑی آؤٹ ہو
چکے تھے۔ اُس وقت کپتان ہی وکٹ پر کھڑا ہوا تھا۔ چچا تیز گام چوں کہ دونوں طرف سے
کھیل رہے تھے۔ اس لیے کپتان کے ساتھ اب چچا تیز گام کو کھیلنا تھا۔ کپتان نے ایک
اوور میں ایک چوکا اور ایک چھکا لگایا۔ یوں اسکور 110 ہو گیا۔ کھیل کافی سنسنی خیر
مراحل میں داخل ہو چکا تھا۔ سب کی نظریں کپتان پر لگی ہوئی تھیں۔ کیوں کہ چچا تیز
گام کے بارے میں تو سب ہی جان چکے تھے کہ وہ کتنے ’’ماہر کھلاڑی‘‘ ہیں۔ آخری اوور
کی پہلی گیند پر کپتان نے ایک زور دار ہٹ لگائی اور چوکا ہو گیا۔ اب میچ جیتنے کے
لیے تین گیندوں پر صرف چھ رنز کی ضرورت تھی۔ محمود کی ٹیم کا جوش و خروش دیدنی
تھا۔ باؤلر نے جیسے ہی دُوسری گیند کروائی تو کپتان نے تیزی سے ایک رن بنا لیا۔ اب
چچا نے باؤلر کا سامنا کرنا تھا۔ خوف کے مارے اُن کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ باؤلر
جیسے جیسے ان کی طرف بڑھ رہا تھا اُن کے خوف میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ کپتان کے
کہنے کے باوجود وہ بغیر پیڈ اور ہیلمٹ کے کھیل رہے تھے۔ وہ بضد تھے کہ یہ جھنجٹ
میں نہیں پالتا، تماشائی ایسے خاموش تھے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔
باؤلر نے اتنی تیزی کے
ساتھ گیند پھینکی کہ چچا کو نظر ہی نہیں آئی۔ یوں وہ گیند ضائع ہو گئی۔
’’چچا!دھیان سے کھیلیں۔ ‘‘ ارسلان چلّایا۔
’’دھیان ہی سے تو کھیل رہا ہوں اگر مجھے گیند ہی نظر نہ آئے تو میں
کیا کر سکتا ہوں۔ ‘‘
’’بس اب ایک چھکے کی ضرورت ہے۔ ‘‘ ارسلان نے کہا۔
’’چھکا۔۔! ارے چھکا لگانا تو میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ‘‘
’’ابّا جان۔۔! آخری گیند پر ہمیں چھ رنز کی ضرورت ہے۔ ‘‘ محمود
پکارا۔
’’ارے صاحب زادے! تم فکر ہی نہ کرو، اب گیند میری طرف آئے گی تو میں
اس کا ایسا حشر کروں گا کہ اُسے چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ ‘‘ چچا بولے۔
باؤلر گیند کروانے کے
لیے تیار تھا۔ وہ تیزی سے وکٹوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اُس نے پوری قوت کے ساتھ گیند
پھینکی تو چچا تیز گام نے دیکھے بغیر کہ گیند کدھر ہے اپنا بلا گھما دیا۔ ایسا
کرتے ہوئے انہوں نے سر کو تیزی سے حرکت دی تھی۔ اُن کے ایسا کرنے کی دیر تھی کہ
گیند صاحبہ اُن کی ٹوپی سے تیزی سے ٹکراتے ہوئے اُن کے سر کو لہولہان کر گئی تھی۔
گیند لگنے کی دیر تھی کہ خون کا ایک فوارہ سر سے اُبل پڑا تھا۔ اپنا خون دیکھ کر
چچا وکٹ پر ’’چھکا، چھکا، چھکا‘‘ کا راگ الاپتے گرے اور بے ہوش ہو گئے۔
٭٭٭
بشکریہ : غزالہ پرویز
No comments:
Post a Comment