Monday, May 25, 2015

علی کامی کا بچپن


میں بچپن میں کسی حد تک شرارتی تھا اور بہت سی شرارتیں جو ہم سب کے بچپن میں کافی مُشترک ہوتی تھیں اُن میں سے ایک شرارت گھنٹی بجا کر بھاگ جانا یا جب لائٹ گئی ہوتی تھی تو گھنٹی کو دبا کر کوئی تِنکا یا ماچس کی تِیلی پھنسا کر لائٹ آنے کا انتظار کرنا اور پھر جب صاحبِ خانہ اچانک اُفتاد پر گالیاں اور کوسنے دیتے دروازے سے باہر وارِد ہوتے تھے تو کیا لمحات ہوتے تھے وہ لیکن میری ان شرارتوں پر اکثر اوقات ٹھُکائی بھی ہوتی رہتی تھی کیونکہ میں سب سے دُبلا پتلا تھا اور موقعِ واردات سے تو بھاگ لیتا تھا لیکن گھر شکایت آنے پر ساری پھُرتیاں نکال دی جاتی تھیں لیکن وہ بچہ ہی کیا جو مار کو دِل پر لے اور پھر شرارت نہ کرے تو جناب ہمارا سکول گھر سے آدھے گھنٹے کی پیدل مُسافت پر تھااور گلی محلے کے لڑکوں اور لڑکیوں سمیت پُورا بیس ، پچیس بچوں کا قافلہ ہر روز صُبح جاتا اور دُوپہر میں چھُٹی کے بعد واپس آتا لیکن میں اور محلے کی ہی ایک لڑکی ہر روز کسی نہ کسی گھر کی گھنٹی بجا کر ایسے بھاگتے جیسے کوئی ثواب کا کام ہو اور باقی ٹولہ بھی پکڑے جانے کے ڈر سے بھاگنا شُروع کر دیتا اور آدھے گھنٹے کی مُسافت پندرہ منٹ میں طے ہوجاتی تھی لیکن ایک گھر ایسا تھا جس کی گھنٹی ہلکا سا دبانے پر بے انتہا اور کافی دیر چیختی تھی اور میں لازمی اُس گھر کی گھنٹی بجاتا تھا کیونکہ وہاں سےکسی کے نکلنے میں ٹائم بھی لگتا تھا کیونکہ کافی بڑا گھر تھا اور پیچھے مُڑ کے دیکھنے پر اکثر ایک خاتون ہی کوسنے دے رہیں ہوتی تھیں تو اطمینان رہتا تھا کہ کوئی پکڑ نہیں سکتا لیکن ایک دن اُن خاتون نے ہم بچوں کو سبق سکھانے کی ٹھان ہی لی اور ہمارے واپسی کے ٹائم پر سارے کام کاج چھوڑ ہمیں پکڑنے کے لیے گیٹ کے پاس ہی بیٹھ گئیں جیسے کوئی شکاری اپنے شکار کو گھیر کر پکڑتا ہے ایسے ہی ہم معصوموں کے شکار کے لیے چوکنا ہو کر اب جیسے ہی میں نے گھنٹی بجائی ساتھ ہی ایک گرجدار نِسوانی آواز آئی ٹھہر جاؤ کمینو کتنے دِن سے جان عذاب کی ہوئی ہے تُم نے اور اتنا سُننا تھا کہ میری دوڑ شُروع اور باقی ٹولہ بھی تیز ہوگیا لیکن میرے چچا کا بیٹا تھوڑا موٹا تھا اور بھاگنے پر سب سے پیچھے رہ جاتا تھا تو جناب اُسکی تختی بھی گِر گئی اب جیسے ہی تختی اُٹھانے کے لیے بیٹھا اتنی دیر میں اُن شکاری آنٹی نے آ دبوچا اور ہم سب تو اندھا دُھند دوڑ پڑے کہ اب تو خیریت نہیں اس لیے گھر پہنچ کر ہی دَم لیا لیکن چچا کے بیٹے کو اُنہوں نے پکڑ کر دو ، چار لگائیں بھی اور کھوجی کے طور پر ساتھ لے کر کُچھ دیر بعد گھر آ دھمکیں اور آتے ہی واویلا مچادیا کہ " اگر سنبھال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو " اور چچی کی کلاس لے کر یہ جا اور وُہ جا اور تنبیہہ بھی کر گئیں کہ دوبارہ ایسی حرکت کی تو گھر پر ہی باندھ لُوں گی تمہارے بچے کو اور اُس کے جاتے ہی چچی نے بھی اپنے برخوردار کی ٹُھکائی کر ڈالی اور وہ شریف بچہ بھی نہیں بولا کہ یہ حرکت میں نے نہیں کی کہ اتنے میں میرے تایا کی بیٹی بول پڑی کہ چاچی شہزاد نے تو کچھ نہیں کیا اِن کے گھر کی گھنٹی تو بِلو نے بجائی تھی اور روز یہی بجاتا ہے صرف اِن کے گھر کی نہیں اور بھی کافی گھر ہیں جنکو یہ سارے راستے تنگ کرتا ہے اور مجبوراً ہمیں بھی بھاگنا پڑتا ہے اِتنا سُننے کی دیر تھی کہ میرے کان بجنے لگے جناب کسی گانے کی وجہ سے نہیں بلکہ امی کے ایک زوردار تھپڑ کیوجہ سے اور آگے کیا ہوا کیا ابھی بھی کوئی ضرورت ہے بتانے کی-
والسلام : علی کامی

No comments:

Post a Comment