پہلی کہانی بھی امّی سے سنی اور ہر بچّہ
ماں سے ہی پہلی کہانی سنتا ہے چاہے پھر وہ کوئی سی کہانی کیوں نہ ہو۔ ہمارے والدین
بھی ہمیں کہانیاں سنایا کرتے تھے نہ صرف رات کو سوتے ہوئے ہی نہیں بلکہ دن کے
اوقات میں بھی۔ ابّو سے کہانی سننے کے لئے تو یا رات کا وقت ملتا یا چھٹی والا دن
لیکن امّی کو ہم کسی وقت نہیں بخشتے تھے۔ وہ کتنی ہی مصروف کیوں نہ ہو ہمیں کہانی
سنانے کے لئے راضی ہوتی ۔ جب وہ کچن میں کھانا پکا رہی ہوتی یا جب کپڑے سی رہی
ہوتی ہم اُن ارد کے گرد بیٹھ جاتے اور وہ ہمیں کہانی سناتی جاتی۔ ان کہانیوں میں
رام سیتا کی کہانی، راجا مہاراجاؤں کی ڈھیڑوں کہانیاں ہوتی، کبھی اپنی زندگی کے
واقعات سناتی۔ ہندوستان میں گزرا اپنا بچپن، اپنے اسکول کی باتیں ، کھیل کود کی
باتیں، اپنے والدین اور رشتے داروں کے قصّے اور پھر ہندوستان سے ہجرت کے دوران پیش
آنے والے واقعات جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھے اور کچھ اپنوں سے سنے۔ ہمارے لئے یہ
سب واقعات ایک کہانی کی طرح ہی ہوتے تھے اور بہت سبق آموز بھی کیونکہ اس سے اچھا
سبق کہیں اور سے نہیں ملتا جو اصل زندگی سے ملتا ہے۔ لیکن ان کے علاوہ بھی امّی
اور ابّو نے بیشمار کہانیاں سنائی جن میں سےایک یہاں شئیر کررہی ہوں جو امّی نے سنائی
تھی۔
'ماں'
ایک گاؤں میں دو میاں بیوی رہتے تھے۔ اُن کے دو بچّے تھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ دونوں اپنے والدین کے بہت لاڈلے تھے ۔ اُن کی امّی سارا دن گھر کے کام کرتی اور اُن کے لئے اچّھے اچھّے کھانے پکاتی۔اُن کے ابّو جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جاتے تھے اور پھر لکڑیاں بیچ کر اُن سے گھر کا سامان لے آتے۔ وہ سب بہت خوش تھے۔ ایک دن اُن کی امّی بہت بیمار ہوگئی ۔ ڈاکٹر کی دوا سے بھی آرام نہ آیا اور وہ اللہ کو پیاری ہوگئی۔ بچّے امّی کو یاد کرکے بہت روتے تھے۔ ابّو نے بہت کوشش کی کہ بچّوں کو سنبھالے لیکن اُن کو جنگل جانا بھی ضروری تھا ورنہ گھر کا خرچہ کیسے چلتا۔ پروسی نے اُن سے کہا کہ وہ دوسری شادی کر لے تو بچّے سنبھل جائے گے۔ پھر ابّو نے دوسری شادی کرلی۔ نئی امّی کچھ دن اُن کے ساتھ بہت اچھی رہی پھر کبھی وہ اُن کو کھانا نہ دیتی اور کبھی ڈانٹتی اور مارتی بھی تھی۔ بھائی بڑا تھا اور سمجھدار بھی اس لئے وہ بہن کو ہمیشہ خود چُپ کروا دیتا اور ابّو کو کچھ نہ بتاتا۔ ایک روز نئی امّی اپنے رشتہ داروں کے گھر چلی گئی اور بچّے دونوں بھوکے تھے۔ بہن رونے لگی تو بھائی اُسے امّی کی قبر پر لے گیا۔ وہاں وہ بہت دیر تک روتی رہی اور امّی کو آوازیں دیتی رہی۔امّی کی قبر آنسوؤں سے بھر گئی۔ پھر وہ روزانہ امّی کی قبر پر جانے لگے۔ ایک روز اُنہوں نے دیکھا کہ امّی کی قبر کے اوپر کچھ پھل لگے ہیں۔ بچّے بھوکے تو تھے ہی دونوں نے پھل کھانے شروع کئے وہ بہت میٹھے تھے۔ دونوں خوش ہوکر گھر واپس گئے۔اب وہ رہزانہ امّی کی قبر پر جاتے اور بہت سے پھل کھا کر واپس آتے۔ اُن کی نئی امّی کو پریشانی ہونے لگی کہ وہ بچّوں کو تھوڑا سا کھانا دیتی ہے اور کبھی نہیں بھی دیتی تو پھر بچّے اتنے صحت مند کیسے ہو رہے ہیں۔ ایک روز نئی امّی نے بچوّں کا پیچھا کیا اور دیکھا کہ بچّے اپنی ماں کی قبر سے پھل تور کر کھا رہے ہیں ۔ یہ دیکھتے ہیں اُن کا دل موم ہوگیا کہ ایک وہ ماں ہے جو اپنے مرنےکے بعد بھی بچّوں کے لئے فکر مند ہے اور اس کی قبر پر اپنے بچّو کے لئے پھل اُگ آئے ہیں، اور ایک یہ خود ہے کہ معصوم بچّوں کو بھوکا رکھتی ہیں۔ اُنہوں نے قبر پر جا کر اُن کی امّی سے معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ وہ اب ان بچّوں کا خوب خیال رکھے گی۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ بچّوں کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آتی تھی۔ اب سب بہت خوش تھے۔
اس سے آپ میں سے جو کوئی بھی جو سبق حاصل کرتا ہے کمینٹ میں ضرور لکھے۔
ثمینہ طارق
ایک گاؤں میں دو میاں بیوی رہتے تھے۔ اُن کے دو بچّے تھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ دونوں اپنے والدین کے بہت لاڈلے تھے ۔ اُن کی امّی سارا دن گھر کے کام کرتی اور اُن کے لئے اچّھے اچھّے کھانے پکاتی۔اُن کے ابّو جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جاتے تھے اور پھر لکڑیاں بیچ کر اُن سے گھر کا سامان لے آتے۔ وہ سب بہت خوش تھے۔ ایک دن اُن کی امّی بہت بیمار ہوگئی ۔ ڈاکٹر کی دوا سے بھی آرام نہ آیا اور وہ اللہ کو پیاری ہوگئی۔ بچّے امّی کو یاد کرکے بہت روتے تھے۔ ابّو نے بہت کوشش کی کہ بچّوں کو سنبھالے لیکن اُن کو جنگل جانا بھی ضروری تھا ورنہ گھر کا خرچہ کیسے چلتا۔ پروسی نے اُن سے کہا کہ وہ دوسری شادی کر لے تو بچّے سنبھل جائے گے۔ پھر ابّو نے دوسری شادی کرلی۔ نئی امّی کچھ دن اُن کے ساتھ بہت اچھی رہی پھر کبھی وہ اُن کو کھانا نہ دیتی اور کبھی ڈانٹتی اور مارتی بھی تھی۔ بھائی بڑا تھا اور سمجھدار بھی اس لئے وہ بہن کو ہمیشہ خود چُپ کروا دیتا اور ابّو کو کچھ نہ بتاتا۔ ایک روز نئی امّی اپنے رشتہ داروں کے گھر چلی گئی اور بچّے دونوں بھوکے تھے۔ بہن رونے لگی تو بھائی اُسے امّی کی قبر پر لے گیا۔ وہاں وہ بہت دیر تک روتی رہی اور امّی کو آوازیں دیتی رہی۔امّی کی قبر آنسوؤں سے بھر گئی۔ پھر وہ روزانہ امّی کی قبر پر جانے لگے۔ ایک روز اُنہوں نے دیکھا کہ امّی کی قبر کے اوپر کچھ پھل لگے ہیں۔ بچّے بھوکے تو تھے ہی دونوں نے پھل کھانے شروع کئے وہ بہت میٹھے تھے۔ دونوں خوش ہوکر گھر واپس گئے۔اب وہ رہزانہ امّی کی قبر پر جاتے اور بہت سے پھل کھا کر واپس آتے۔ اُن کی نئی امّی کو پریشانی ہونے لگی کہ وہ بچّوں کو تھوڑا سا کھانا دیتی ہے اور کبھی نہیں بھی دیتی تو پھر بچّے اتنے صحت مند کیسے ہو رہے ہیں۔ ایک روز نئی امّی نے بچوّں کا پیچھا کیا اور دیکھا کہ بچّے اپنی ماں کی قبر سے پھل تور کر کھا رہے ہیں ۔ یہ دیکھتے ہیں اُن کا دل موم ہوگیا کہ ایک وہ ماں ہے جو اپنے مرنےکے بعد بھی بچّوں کے لئے فکر مند ہے اور اس کی قبر پر اپنے بچّو کے لئے پھل اُگ آئے ہیں، اور ایک یہ خود ہے کہ معصوم بچّوں کو بھوکا رکھتی ہیں۔ اُنہوں نے قبر پر جا کر اُن کی امّی سے معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ وہ اب ان بچّوں کا خوب خیال رکھے گی۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ بچّوں کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آتی تھی۔ اب سب بہت خوش تھے۔
اس سے آپ میں سے جو کوئی بھی جو سبق حاصل کرتا ہے کمینٹ میں ضرور لکھے۔
ثمینہ طارق
شکریہ :)
ReplyDelete