بچپن
کے کھیل
چونکہ بچپن سے متعلق ہفتہ منایا جا رہا ہے اور میں نے بہت سی ایسی پوسٹ دیکھی جن میں بچپن میں کھیلے جانے والے کھیلوں کو یاد کیا جارہا ہے اور بچپن میں پڑھی جانے والی کہانیوں اور کتابوں کا ذکر شامل ہے تو سوچا آج پہلے بچپن میں کھیلے جانے والے کھیلوں کا ذکر کروں۔
کھیل تو بہت چھوٹی عمر سے ہی کھیلے جاتے ہیں اور بچّے کو پیدائش پر ہی بہت سے کھلونوں کے تحائف دے دئے جاتے ہیں تو جناب ہمارا بھی سب سے پہلا کھلونا جھُنجنا ہی تھا جسے آپ گھنٹی بھی کہہ سکتے ہیں۔
چونکہ بچپن سے متعلق ہفتہ منایا جا رہا ہے اور میں نے بہت سی ایسی پوسٹ دیکھی جن میں بچپن میں کھیلے جانے والے کھیلوں کو یاد کیا جارہا ہے اور بچپن میں پڑھی جانے والی کہانیوں اور کتابوں کا ذکر شامل ہے تو سوچا آج پہلے بچپن میں کھیلے جانے والے کھیلوں کا ذکر کروں۔
کھیل تو بہت چھوٹی عمر سے ہی کھیلے جاتے ہیں اور بچّے کو پیدائش پر ہی بہت سے کھلونوں کے تحائف دے دئے جاتے ہیں تو جناب ہمارا بھی سب سے پہلا کھلونا جھُنجنا ہی تھا جسے آپ گھنٹی بھی کہہ سکتے ہیں۔
کھیلوں کا آغاز گھر
میں کھیلے جانے والے کھیلوں سے ہوا جو سب سے پہلا کھیل تھا وہ 'گھی ڈبہ' تھا۔ اس
کا آغاز تو مجھ سے ہی ہوا لیکن پھرہم تینوں بھائی بہنوں کا پسندیدہ کھیل بن گیا۔ بچّے
عموماً اپنی والدہ کو اُس وقت ضرور تنگ کرتے ہیں جب وہ کچن میں ہو اور خاص کر کے
روٹی پکا رہی ہو اور ہمارا شمار بھی ایسے بچّوں میں ہوتا تھا ۔ اس کا حل ہمارے
والدِ محترم نے کچھ یوں نکالا کہ بچّے کو کندھے پر بٹھا کر گھر میں گھماتے اور جب
ہم رونے لگتے تو امیiکے پاس لے جاتے اور کہتے لو میں گھی کا ڈبہ لایا
ہوں گھی خرید لو ۔ یہ تو ایک ترکیب تھی بچّے کو چُپ کروانےکی اور ہنسانے کی لیکن
یہ ہمارا سب سے پسندیدہ کھیل بن گیا اور پھر ہم باری باری ابّو کے کندھے پر سوار
ہوتے اور کہتے گھی لے لو بھائی۔ وہ لمس وہ کندھا کبھی نہ بھولا جو ہمارا سہارا
تھا۔
خیر ایموشنل ہونے کی ضرورت نہیں بات ہو رہی ہے کھیل کی تو جناب گھر میں امیّ ابّو کے ساتھ کھیلنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا تھا نہ صرف اُس وقت تک جب تک باہر جانے کی اجازت نہ تھی بلکہ جب تک وہ حیات رہے رات کو کم از کم ویک اینڈ پر ہمارے گھر میں لُڈو، کیرم بورڈ ، نام چیز جگہ، چور پولس وغیرہ باقاعدگی سے کھیلا جاتا تھا اور یہی ہم نے اپنے بچّوں کے ساتھ بھی کھیلا اور اب تک کھیلتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک اور کھیل بھی کھیلا جو تاش تھا مگر ایک وقت میں امّی ابّو کے ساتھ بیٹھ کر۔
جب باہر کھیلنے جانے کی اجازت ملی تو پھر سب کھیل کھیلے پکرم پکرائی ، پیل دوج، لنگڑی پالا (جس میں ایک ٹانگ اُٹھا کر دام دی جاتی تھی) برف پانی ،کھو کھو، اونچ نیچ، چھپن چھپائی ،گھوڑا جمال کا، کرکٹ جو گھر سے باہر صرف لڑکوں کے ساتھ کھیلی اور گھر کے اندر امّی ابوّ کے ساتھ ۔اس کے علاوہ ریسنگ کا شوق تھا اور مقابلوں میں بھی حصّہ لیا جیسا کہ اپنے ایک مضبون میں پہلے بھی لکھ چکی ہوں اور اس کی پریکٹس کے لئے کچھ وارم اپ ایکسرسایئزز کروائی جاتی تھی جو میرے لئے باقاعدہ ایک کھیل تھی اور میں اُسے گھر میں بھی کھیلتی تھی جس میں رسّی کودنا (اک ساتھ ۲00 مرتبہ سیدھا اور اُلٹا دونوں) اور گیند کو دیوار کی طرف پھینک کر کیچ کرنا مگر مختلف زاویوں اور طریقوں سے یہ میرا بہت پسندیدہ کھیل تھا جو روزانہ اسکول جانے سے قبل اور رات کو سونے سے قبل کھیلا جاتا تھا۔
~ثمینہ طارق
خیر ایموشنل ہونے کی ضرورت نہیں بات ہو رہی ہے کھیل کی تو جناب گھر میں امیّ ابّو کے ساتھ کھیلنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا تھا نہ صرف اُس وقت تک جب تک باہر جانے کی اجازت نہ تھی بلکہ جب تک وہ حیات رہے رات کو کم از کم ویک اینڈ پر ہمارے گھر میں لُڈو، کیرم بورڈ ، نام چیز جگہ، چور پولس وغیرہ باقاعدگی سے کھیلا جاتا تھا اور یہی ہم نے اپنے بچّوں کے ساتھ بھی کھیلا اور اب تک کھیلتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک اور کھیل بھی کھیلا جو تاش تھا مگر ایک وقت میں امّی ابّو کے ساتھ بیٹھ کر۔
جب باہر کھیلنے جانے کی اجازت ملی تو پھر سب کھیل کھیلے پکرم پکرائی ، پیل دوج، لنگڑی پالا (جس میں ایک ٹانگ اُٹھا کر دام دی جاتی تھی) برف پانی ،کھو کھو، اونچ نیچ، چھپن چھپائی ،گھوڑا جمال کا، کرکٹ جو گھر سے باہر صرف لڑکوں کے ساتھ کھیلی اور گھر کے اندر امّی ابوّ کے ساتھ ۔اس کے علاوہ ریسنگ کا شوق تھا اور مقابلوں میں بھی حصّہ لیا جیسا کہ اپنے ایک مضبون میں پہلے بھی لکھ چکی ہوں اور اس کی پریکٹس کے لئے کچھ وارم اپ ایکسرسایئزز کروائی جاتی تھی جو میرے لئے باقاعدہ ایک کھیل تھی اور میں اُسے گھر میں بھی کھیلتی تھی جس میں رسّی کودنا (اک ساتھ ۲00 مرتبہ سیدھا اور اُلٹا دونوں) اور گیند کو دیوار کی طرف پھینک کر کیچ کرنا مگر مختلف زاویوں اور طریقوں سے یہ میرا بہت پسندیدہ کھیل تھا جو روزانہ اسکول جانے سے قبل اور رات کو سونے سے قبل کھیلا جاتا تھا۔
~ثمینہ طارق
شکریہ :)
ReplyDelete